دس سال پہلے کی ڈانٹ

بارہ برس قبل کا قصہ ہے۔ میں اور فرخ ایکسٹرنل کے سامنے خوف زدہ سے بیٹھے تھے۔ بی ایس کا فائنل تھیسس ہم دونوں نے مل کر ہی لکھا تھا۔ چلو لٹریچر ریویو وغیرہ کی حد تک تو پہلے سے دستیاب مواد سے استفادہ کیا۔ لیکن ریسرچ میں خوب جان ماری۔ ڈیٹا خود اکٹھا کیا، انٹرویوز خود کیے۔ دن بھر فرخ کی موٹرسائیکل پر خاک پھانکتے۔ شام میں ہوسٹل واپس آ کر جمع شدہ مواد کو تحریر کرتے۔ ایک ایک لفظ خود اپنے ہاتھ سے لکھا۔ تحقیقی تجزیے اور اختتامی نوٹ میں تو اس قدر عرق ریزی کی کہ ایک ایک کوما اور فل اسٹاپ تک ازبر ہو گیا۔
اس کے باوجود ایکسٹرنل سے خوف زدہ ہونے کی ایک وجہ ان کی مونچھیں تھیں، جو بہت گھنیری نہ تھیں، لیکن چہرے کو خاصا بارعب بنا رہی تھیں۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ ایکسٹرنل صاحب انگریزی میں سوال پوچھتے اور انگریزی میں ہی جواب کی توقع رکھتے۔ آہستہ آہستہ ہماری انگریزی کی گاڑی چل پڑی تو خود اعتمادی آتی گئی۔ ایک جگہ کسی سے منسوب بیان درج تھا۔ انہوں نے پوچھا، آپ ایسا کیسے کہہ سکتے ہیں؟ فوراً جواب دیا، سر یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ فلاں صاحب کہہ رہے ہیں، سطر کے اسی حصے میں لکھا بھی ہے کہ یہ بیان فلاں صاحب کا ہے۔
اس جواب کے بعد تو گویا مہر لگ گئی کہ بچوں نے کاپی پیسٹ نہیں کیا، خود سے سارا کام کیا ہے، تبھی تو باریک نکات کا بھی تفصیلی جواب دے رہے ہیں۔ ممتحن صاحب کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آ گئی اور ماحول کا تناؤ قریب قریب ختم ہو گیا۔
سلسلہ سوال و جواب کے بالکل آخر میں انہوں نے مسکراتے ہوئے پوچھا، سچ سچ بتائیے، آپ دونوں میں سے کس نے کتنا کتنا کام کیا ہے؟ جواباً عرض کیا، سر! ریسرچ اور ڈیٹا کولیکشن تو دونوں نے مل کر کی، لیکن میری انگریزی چوں کہ نسبتاً بہتر ہے، لہذا تھیسس تحریر میں نے کیا۔
انہوں نے اسپاٹ انداز میں کہا، اپنی انگریزی اچھی ہونے کے بارے میں آپ کی رائے شدید غلط فہمی پر مبنی ہے۔
بہر حال۔ وہ ہمارے کام سے خوش تھے۔ ہمارے سپروائزر کو ہمارے بارے میں خوب اچھی رائے دی اور نمبر بھی اچھے دیے۔
بعد میں معلوم ہوا کہ ممتحن اقبال انجم صاحب ہیں۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے تشریف لائے تھے۔ غالباً کسی اخبار سے بھی وابستہ تھے۔
وقت گزرتا گیا، تعلیمی سیڑھی کا ایک درجہ اور عبور کرتے ہوئے ایم فل کا کورس ورک بھی مکمل کر لیا۔ میں اپنے دوست عمر بلال کے ایم فل کے پراجیکٹ میں معاونت کر رہا تھا۔ عمر ایسے لوگوں پر ڈاکومنٹری بنا رہا تھا جو انٹرنیٹ پر کسی اور شناخت سے اکاؤنٹ بناتے ہیں۔ ایک روز ہم پنجاب یونیورسٹی شعبہ ابلاغیات کی لائبریری میں انٹرویو ریکارڈ کر رہے تھے۔ ڈاکومنٹری انگریزی میں بننی تھی، اس لیے سوالات بھی انگریزی میں تھے۔ پہلا سوال تھا، آپ کب سے انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں؟
تو میں نے انگریزی میں پوچھا
Since when are you using internet
جیسے ہی میں نے سوال پوچھا، ایک کونے سے گونج دار آواز آئی، انگریزی نہیں آتی تو انگریزی میں سوال کیوں کرتے ہو؟
حیرت سے آواز کی جانب دیکھا۔ کلین شیو صاحب، آنکھوں میں غصہ لیے ہماری طرف دیکھ رہے تھے۔ ان سے وضاحت چاہی۔ کہنے لگے
Since when
کیا ہوتا ہے؟ انگریزی کی ٹانگ توڑ کر رکھ دی۔ انگریزی نہیں آتی تو کوئی ناول وغیرہ پڑھ لیا کرو۔ یونیورسٹی طالب علم ہو کر بھی اتنی بنیادی سی بات نہیں معلوم۔ غرض خوب کلاس کرنے کے بعد انہوں نے بتایا، سنس وین استعمال کرنا غلط ہے۔ یہ جملہ یوں بولا جائے تو درست ہو گا
For how long have you been using internet
ان سے تعارف چاہا تو معلوم ہوا اقبال انجم صاحب ہی ہیں۔ بس مونچھوں کی کمی ہے۔ انہیں یاد دلایا کہ آپ نے ہمارا زبانی امتحان (وائیوا) لیا تھا۔ اب انہیں بھی یاد آ گیا۔ یوں یہ معاملہ خوش گوار مسکراہٹوں کے ساتھ انجام کو پہنچا، اور ڈانٹ کی کوفت کچھ کم ہوئی۔
بس ہوا یہ، کہ عزیز دوست اب تک ہمیں اس ڈانٹ کے حوالے سے چھیڑتے ہیں۔ جہاں ہم کوئی جملہ انگریزی میں بول دیں، وہ کہتے ہیں
Since when have you started speaking English
اور ہم جھینپ جاتے ہیں۔
اس واقعے کے دس سال بعد انگریزی اخبار ایکسپریس ٹریبیون کے صفحہ اول پر چیف جسٹس صاحب کا بیان چھپا۔ چیف جسٹس صاحب نے کہا تھا، پی ٹی آئی والوں نے کب سے بدمعاشی شروع کر دی۔ ایکسپریس ٹریبیون نے اس کا ترجمہ کیا ہے
Since when has PTI started acting like thugs: CJP
یہ سرخی پڑھنے کے بعد سے سکتہ طاری ہے۔ دس برس قبل پیش آنے والا واقعہ تمام تر جزئیات کے ساتھ سامنے کھڑا ہے۔ ذہن سوال پوچھتا ہے کہ ہمیں دس سال پڑنے والی ڈانٹ غلط تھی، یا انگریزی اخبار کی یہ سرخی غلط ہے۔

Since When

2 thoughts on “دس سال پہلے کی ڈانٹ

  1. جناب محترم عمیر محمود صاحب۔۔۔ ہمیشہ کی طرح آپ نے بہت اچھا لکھا مگر آپ یہ ثابت کرنے کی کوشش نہ کریں کہ آپ کا مزاق اڑانا غلط تھا اس بارے میں۔۔۔۔ بول چال کی زبان اور گرامر الگ ہوتی ہے اور لکھنے والی زبان مطلب الفاظ اود گرامر فرق ہوتے ہیں اس لیے آپ کو Since when کے استمعال پر اعتراض ہے جو کہ میرے خیال سے درست نہیں۔۔۔۔

    پسند کریں

تبصرہ کریں