برصغیر پر جب انگریز قابض تھا۔ تو وہاں ریڈیو اسٹیشن کا ڈول ڈالا گیا۔سید ذوالفقارعلی بخاری اس وقت ریڈیو سے وابستہ ہوئے۔ اور براڈکاسٹنگ میں بہت نام کمایا۔یہاں تک کہ پاکستان بننے کے بعد یہاں ریڈیو پاکستان کے ڈائیریکٹر جنرل تک ترقی پائی۔
یہ قصہ ذوالفقار بخاری صاحب کی سرگزشت سے لیا گیا ہے۔۔اور اس وقت کا ہے، جب دہلی ریڈیو اسٹیشن کے لیے موسیقار منتخب کیے جانے تھے۔
سید زوالفقار بخاری اپنی سرگزشت میں لکھتے ہیں۔ کہ ان کا خیال تھا۔۔ جب یہ شہرت ہو گی کہ دہلی میں ریڈیو اسٹیشن کھل رہا ہے اور موسیقاروں کو اجرت پر پروگرام ملیں گے، تو میرے دفتر کے سامنے گانے والوں اور گانے والیوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ جائیں گے۔
مگر وہ دلی تھی۔
ہر طرف سے یہ جواب دیا گیا کہ تم کون ہوتے ہو ہمارا امتحان لینے والے۔
مجرے سے پہلے ہمارا گانا سننا چاہتے ہو تو کوٹھے پر آؤ۔
گانا پسند آئے تو استاد جی سے بات کرو، پھر جس دن کہو گے ڈولی میں بیٹھ کر تمہارے ہاں آ جائیں گے۔
گانے والیوں نے ضد دکھائی تو ریڈیو والوں کو ہار ماننا پڑی۔ فیصلہ ہوا کہ طوائفوں کے کوٹھے پر جا جا کر ان کا گانا سنا جائے۔ اور ان سے گفتگو کر کے فیس مقرر کی جائے۔
اب یہ خیال آیا کہ کسی نے طوائفوں کے کوٹھے پر جاتا دیکھ لیا تو؟
تب فیصلہ کیا گیا کہ رات کو چھپ چھپا کر جائیں گے۔
آخر ایک رات۔ بخاری صاحب، ریڈیو کے ہی ایک ساتھی، جن کا نام نیازی تھا، ساتھ لے کر ، اختری بائی، آگرے والی کے کوٹھے پر جا پہنچے۔
اختری نے پاندان کھولا، گلوریاں بنائیں، اور تھالی میں رکھ کر پیش کیں۔
نیازی نے زوالفقار بخاری کے کان میں کہا، دو روپے پان کی تھالی میں رکھ دو۔
ان کی جیب میں دس روپے کا نوٹ تھا، وہی رکھ دیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ آٹھ روپے واپس نہیں ملنے والے۔
خیر، اختری بائی کا گانا سنا گیا۔
اس کے بعد انہوں نے اختری سےہی پوچھا۔۔ یہاں کوئی اور بھی گانے والی ہے۔اس نے کہا، ساتھ کے کوٹھے پر درگا بائی گاتی ہے۔ کہا اسے یہیں بلوا لو۔ اختری بولی، وہ یہاں کیوں آنے لگی، آپ ہی کو وہاں جانا ہو گا۔
انہوں نے اختری سے کہا، تم بھی ہمارے ساتھ چلو۔وہ راضی ہوگئی۔
جب وہ چلنے لگی تو ایک سازندےنے کہا، چودھری کی بیٹی ہو، درگا کے استادوں کو نذر دینا ہو گی۔ دو چار روپے ساتھ رکھ لو۔
یہاں اختری نے ایک ایسا فقرہ کہا۔۔جو سننے والوں کے چودہ طبق روشن کر دے۔۔
اختری بولے، ارے واہ کیسی نذر۔ میں کون سے شریفوں کو کوٹھے پر لے جارہی ہوں۔
یہ فقرے سن کر ان کے چہرے تمتما اٹھے۔ اختری تیور بھانپ گئی۔ شرما کر وضاحت کی۔۔ برا نہ مانیے۔ ہمارے یہاں شریف ان کو کہتے ہیں جو دل بہلانے کےلیے گانا سننے آئیں۔ آپ تو کاروباری آدمی ہیں۔
اس کے بعد کیا ہوا۔۔یہ معاملہ بھی سننے والا ہے۔۔
بخاری صاحب نے اگلے روز دفتر میں جا کر بل پیش کر دیا، کہ دس روپے اختری کے ہاں پان کی تھالی میں رکھے اور دو روپے درگا کے ہاں۔
یہ بن گئے بارہ روپے۔۔ واپس دلوائے جائیں۔
اس بل کی داستان سارے دفتر والوں نے پڑھی۔ وہاں سے اخباروں تک پہنچ گئی۔ اور اخباروں سے زوالفقار بخاری صاحب کی اہلیہ تک۔
وہ ناراض ہو کر بچوں کو لے کر چلی گئیں۔
انہوں نے بخاری صاحب کے گھر والوں تک معاملہ پہنچایا۔ کہ جی وہ تو کوٹھے پر جاتے ہیں۔۔
یوں اچھی خاصی غلط فہمی پیدا ہو گئی۔