یار! Communicationمیں کوئی کمی رہ گئی۔
جو آنسوؤں کی جھڑی اب لگی ہے، اس وقت بہائی ہوتی۔ گریہ زیادہ کیا ہوتا۔ زیادہ تڑپ کے طلب کرتے۔زیادہ شدت سے سوال کیا ہوتا۔
جسے مغیث صاحب نے ابلاغ پڑھایا، وہ نالائق وقت آنے پر ابلاغ کر نہ سکا۔ ُاس طرح سے مانگ نہ سکا، کہ دینے والا زندگی دے دیتا۔
جب مغیث صاحب کی علالت اور اسپتال لے جانے کی اطلاع ملی تو اللہ جی سے کہا، پلیز! ٹیچر ہیں اپنے ۔ صحت دے دیں ۔ اور یہ دعا کرتے ہوئے دل میں اتنا یقین تھا کہ اللہ جی قبول کر لیں گے۔ میرے مغیث صاحب بہت جلد صحت یاب ہو کر گھر کو لوٹ آئیں گے۔ دعا کے بعد تشویش نہ رہی تھی۔ میری سب دعائیں سننے والا ، یہ کیسے رد کر سکتا تھا۔
پھر معلوم ہوا کہ مغیث صاحب وینٹی لیٹر پر منتقل کر دیے گئے ہیں۔ اب ذرا تشویش سے رجوع کیا۔ عاجزی اور گڑگڑاہٹ بڑھ گئی۔
لیکن یار، اپنی دعاؤں میں کوئی کمی رہ گئی۔
اس رات پاک کلام کھولا تو آیت بھی کون سی سامنے آئی؛ سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 145، "اور اللہ کے حکم کے سواکوئی مر نہیں سکتا۔ ایک وقت مقرر لکھا ہوا ہے۔”
اب یہ پڑھنے کے بعد تو گلہ بھی نہیں کر سکتے۔ رہا صبر، سو کررہے ہیں۔ اپنے مغیث صاحب کے لیےآگے کی منزلیں آسان ہونے کی دعا کررہے ہیں۔ لواحقین کے لیے صبر مانگ رہے ہیں۔
اپنے استاد کے لیے کچھ لکھنے بیٹھا ہے تو اس نالائق سے اب کچھ لکھا ہی نہیں جا رہا۔
جب پنجاب یونیورسٹی کے ادارہ ابلاغیات میں داخلہ ہوا، تو مشینوں اور سافٹ ویئر کی جانب خوب راغب ہوتا۔ کیمرہ آپریٹ کرنے کی لگن تھی، ایڈیٹنگ سافٹ ویئر پر عبور حاصل کرنے کا شوق تھا، عکاسی کے لیے درست روشنیوں کا استعمال سیکھنے پر مائل تھا۔ یہ مغیث صاحب ہی تھےجنہوں نے سمجھایا، کہ جو بات آپ کہنا چاہتے ہیں وہ اہم ہے۔ اسےلکھنے کا، کہنے کا ڈھنگ سیکھو۔ یہ کیمرہ اور سافٹ ویئر تو بس اوزار ہیں۔ بات لکھنے کا ہنر آتا ہو تو اوزاروں کا استعمال بھی آ ہی جاتا ہے۔
شاید 17 برس ہو چلے ہیں، اس نالائق کو لکھنا نہ آیا۔ لفظوں کے پیچھے بھاگ رہا ہے، وہ پکڑائی نہیں دیتے۔
یونیورسٹی کے ابتدائی درجوں میں مغیث صاحب سے سیکھی باتیں آج بھی کام آ رہی ہیں۔ اگر باقی کہتے تھے کہ ٹیلی وژن اور ریڈیو پر جملے مختصر لکھو، تو مغیث صاحب نے یہ بات یوں کہی تھی۔
"یہ کیا بات ہوئی کہ پاکستان اور انڈیا کے مابین میچ ہوا؟ مابین بولو گے تو سننے والوں کو ماں بہن سنائی دے گا۔
یہ کیوں نہیں کہتے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان میچ ہوا۔ یا پاکستان اور انڈیا کا میچ ہوا۔ ”
اس روز کلاس میں سنا یہ ایک جملہ کہاں کہاں نہیں کام آیا۔ اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں کتنے ہی جملوں کو اسی پیمانے سے موزوں کیا۔
یہ سب ہی کہتے تھے کہ صحافت ایک پیشہ نہیں، طرز زندگی ہے۔ لیکن سمجھ تب آئی جب مغیث صاحب نے ایک واقعہ سنایا۔
ایک بار وہ کسی فوٹو گرافر کے ہمراہ موٹرسائیکل پر کہیں جا رہے تھے ، تو دھواں چھوڑتی ایک سرکاری بس پر نظر پڑی۔ بس تھی محکمہ تحفظ ماحولیات کی۔ تو مغیث صاحب نے فوٹو گرافر سے کہا، اس کی تصویر کھینچ لو، کہ محکمہ تحفظ ماحولیات کی بس ہی ماحول کو خراب کر رہی ہے۔ اس پر فوٹو گرافر کا جواب تھا، "میں شفٹ تے نہیں ہیگا۔” یعنی اس وقت میں ڈیوٹی پر نہیں ہوں۔
مغیث صاحب کہتے تھے کہ صحافی ڈیوٹی پر ہویا نہ ہو، خبر سے منہ نہیں موڑ سکتا۔ جو منہ موڑتا ہے وہ صحافی نہیں ہے۔
سسٹم کیسے بنانے ہیں اس کی مثال بھی مغیث صاحب سے ہی ملی۔ جب پنجاب یونیورسٹی کا ریڈیو اسٹیشن چل پڑا تو ایک دن نشریاتی اور تکنیکی عملے سے پوچھا۔ اگر ہم سب ایک گاڑی میں جا رہے ہوں، اور حادثے میں جاں بحق ہو جائیں۔ تو اس ریڈیو کا کیا بنے گا؟ اگر تو ریڈیو چلتا رہے گا، پھر ہم نے بنیاد درست رکھی ہے۔ ادارے شخصیات پر نہیں انتظامات پر چلتے ہیں۔
جب وہ شعبے کی سربراہ تھے تو ایک ایسی بات کہی جو میں نے آج تک پلے سے باندھی ہوئی ہے۔ فرمایا تھا، ” بطور سربراہ اگر میرےاقدامات سے چند لوگ ناراض ہوتےہیں، اس کا مطلب ہے میں ٹھیک کام کر رہا ہوں۔” اس جملے سے سیکھا کہ آپ ہر کسی کو خوش نہیں کر سکتے۔ اس لیے اگر آپ پر ذمہ داری ہے تو وہ کریں جسے آپ درست سمجھتے ہیں۔
وہ پنجاب یونیورسٹی ہاسٹل نمبر 17 کے وارڈن تھے۔ ایک بار میس کا معائنہ کیا تو برتن صاف نہیں دھلے تھے۔ اس پر انہوں نے برتن دھونے والے کی سرزنش کی تو جمیعت والے سفارشی بن کر آ گئے۔ کہنے لگے، جانے دیں سر، غریب ہے۔
مغیث صاحب نے جواب دیا، کیا اس کی غربت اسے برتن اچھی طرح دھونے سے روکتی ہے؟
میں نے اس سے سیکھا کہ غربت بری کارکردگی کا جواز نہیں ہو سکتی۔
کیسی کیسی ہستیوں کو ہم سے ملوانے وہ شعبہ ابلاغیات میں لے کر آئے۔
مغیث صاحب ہی کے توسط سے پہلی دفعہ جاوید چودھری صاحب کو زندہ (لائیو، براہ راست) دیکھا اور ان سے پوچھا، آپ اپنے کالموں میں اتنے اعدادوشمار کہاں سے لاتے ہیں؟
ان ہی کے ذریعے پہلی مرتبہ مستنصر حسین تارڑ صاحب سے ملاقات ہوئی، اور ان سے پوچھا کہ سفر ناموں میں آپ کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھنے والی ہر لڑکی آپ پر فریفتہ کیوں ہو جاتی ہے؟
مغیث صاحب ہی نے ایم اے نیازی صاحب کو پڑھانے کے لیے بلایا۔ ایم اے نیازی صاحب نے سمسٹر کے اختتام پر میری درخواست پر مجھے دی نیشن کے لیے فیچر رائٹنگ کا موقع دیا۔
شعبہ ابلاغیات کے احاطے میں ہی ڈاکٹر شاہد مسعود صاحب نے طلبہ کو وہ قصہ سنایا ، جب پرویز مشرف نے ان سے کہاتھا، "آپ ڈاکٹر ہوتے ہوئے صحافت کیوں کررہے ہیں؟” اور شاہد مسعود نے جواب دیا تھا، "جنرل صاحب! یہ آپ کہہ رہے ہیں؟”
(ویسے کیا ہی اچھا ہوتا کہ دونوں شخصیات اپنا اپنا کام کرتیں، تو آج شاید حکومت اور صحافت کی حالت بہتر ہوتی)
کیا پر وقار شخصیت تھےمیرے مغیث صاحب۔ لباس کا چناؤ شاندار تھا،جو پہنتے، ان پر پھبتا۔ شلوار قمیص بھی سجتی اور پینٹ شرٹ بھی۔ سوٹ پہنتے تو وہ بھی زیب دیتا۔
طلبہ کو بھی اچھا پہننے اور اچھا دکھنے کی تلقین کرتے۔ شیو بڑھی ہوتی تو گرفت کرتے۔
دل کے کھلے تھے۔ اتنے کھلے تھے کہ لگتا ہی نہیں تھا شیخ برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔
ان کے سامنے کوئی تحریری درخواست پیش کرنا شاید سب سے مشکل کام تھا۔ کیوں کہ درخواست تو وہ لمحوں میں قبول کرلیتے تھے، البتہ اس میں زبان و بیاں اور گرائمر کی غلطیاں معاف نہیں کر تے تھے۔
مغیث الدین شیخ صاحب نے ساری زندگی علم بھی بانٹااور محبت بھی۔ ان کے ذریعے کتنوں نے خبر بنانے کا گُر سیکھا۔ کتنوں نے اظہار کا سلیقہ سیکھا ۔
اورایک میں ہوں، ان کے لیے ڈھنگ سے کچھ لکھ بھی نہ سکا۔
مغیث صاحب! آپ کا یہ اسٹوڈنٹ تو بہت ہی نالائق نکلا۔