Monthly Archives: مارچ 2021
کاروبار کرنا ہو تو دلیری دکھانی پڑتی ہے
پندرہ سواں سبسکرائبر
ارب پتی نے اکلوتے بیٹے کے لیے کچھ نہ چھوڑا
ایک نشست میں پورا ناول پڑھا اور۔۔
فیس بک پوسٹ پر پوچھا کہ جو احباب ایک ہی نشست میں پورا پورا ناول پڑھ ڈالتےہیں، یا کسی ڈرامے کا گھنٹوں پر محیط سیزن ختم کر کے اٹھتے ہیں ، کیا ان کی آنکھوں اور سر میں درد نہیں ہوتا؟ جواب میں جنہوں نے لکھا کہ انہیں آنکھ یا سر درد کی کوئی شکایت نہیں ہوتی، ان سے حسدمحسوس کیا۔ جن کا جواب اس سے الٹ آیا، ان سے یہ جان کر دل میں اطمینان سا ہوا کہ چلو! کوئی اور بھی ہے جسے یہ عارضہ لاحق ہے۔
پوچھا یوں، کہ عرصے سے دل ایسی فرصت مانگتا ہے کہ گھنٹوں بیٹھ کر (بلکہ لیٹ کر) ناول پڑھا کریں، فلمیں دیکھیں اور دنیا کا کوئی کام دھندا اس میں مخل نہ ہو۔ لیکن جب کبھی ایسی فرصت ملی، اور گھنٹوں کتاب پڑھنے یا فلم دیکھنے میں بتائے تو بجائے لطف اندوز ہونے کے، بیزار ہو کر اٹھے۔ سرکا درد اور آنکھوں کی دکھن سارے مزے کا مزا خراب کر دیتی۔
اور حاصل کلام یہ ہر چیز کسی قاعدے اور اعتدال میں ہو تو ہی ٹھیک ہے ورنہ نری اکتاہٹ ہے۔
یہ بور سی ویڈیو بھی ایسے ہی ایک تجربے کی کہانی ہے۔ جو چھ منٹ 20 سیکنڈ کی ویڈیو میں کہا ہے، کم و بیش وہی اوپر کی چند سطروں میں بھی بیان کر دیا ہے۔ ویڈیو بے شک نہ دیکھیں۔ ہاں اگر آپ پوچھنا چاہیں کہ ہمیں جرائم اور سنسنی پر مبنی ناول پسند ہیں، کیا محمد حنیف کا ناول، آ کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز پڑھنا چاہیے؟ تو میرا جواب ہو گا، اگر آپ کو کہیں سے مل گیا تو ضرور پڑھیں۔
صرف 22 پیسے کی بچت
کیسے لکھیں؟ لکھنے والوں کے لیے چند ٹوٹکے
سٹیفن کنگ کے انکل کے گھر، ایک بڑا اور بہت ہی بھاری ٹول باکس تھا۔ آپ نے مستری حضرات کے پاس ٹول باکس دیکھے ہوں گے۔ ان میں خانے بنے ہوتے ہیں، جن میں اوزار رکھے جاتے ہیں۔ مستری حضرات جہاں جاتے ہیں، یہ ٹول باکس ساتھ لے کر جاتے ہیں، تاکہ کہیں کسی اوزار کی ضرورت پڑے تو نکال کر استعمال کر لیا جائے۔
لیکن سٹیفن کنگ کے انکل کے گھر جو ٹول باکس تھا، وہ ذرا مختلف تھا۔ ایک تو وہ بنا لکڑی کا ہوا تھا، دوسرا سائز میں معمول سے ذرا زیادہ بڑا تھا،اور تیسرا ،بھاری بھی بہت تھا۔
کہانی آگے بڑھانے سے پہلے بتا دوں کہ سٹیفن کنگ ، ایک جانے مانے لکھاری ہیں۔

Mandatory Credit: Photo by Evan Agostini/Invision/AP/REX/Shutterstock (9689901ac) PEN America literary service award recipient Stephen King 2018 PEN Literary Gala, New York, USA – 22 May 2018
ایک دن سٹیفن صاحب اپنے انکل کے گھر گئے تو پتہ چلا
گٹر، اتری شلوار، مجھے بچاتے کیوں نہیں ہو؟
اس کی چیخیں آج بھی مجھے پکارتی ہیں۔
وہ تاریخ ،حتیٰ کہ سال تک بھول گیا ہوں، جب پہلی دفعہ اسے چیختے سنا۔ایک منٹ دورانیے کا ویڈیو کلپ آج بھی میرا پیچھا کر تا ہے۔
شاید یہ 2007 کے آس پاس کی بات ہے۔ آمنہ مسعود جنجوعہ اپنے لاپتہ شوہر کی بازیابی کے لیے مظاہرہ کر رہی تھیں۔ ان کا بیٹا بھی ان کے ساتھ تھا، اور تب اس کی عمر 16 سال کے لگ بھگ ہو گی۔
نہ معلوم کیوں، ریاست کے کارندوں نے فیصلہ کیا کہ شہری لاپتہ کرنا بھلے جرم ہو گا، لیکن اس کا پتہ پوچھنا ضرور قابل گرفت ہے۔ درجن بھر اہلکاروں نے نوجوان نہتے لڑکے کو قابو کر لیا، اور جب لے کر چلے تو مزاحمت کےدوران بے چارے کی شلوار اتر گئ۔
شاید اس وقت کسی نے کہا بھی کہ لڑکے کو شلوار پہن لینے دو۔ لیکن جب ریاست ہی برہنہ ہو جائے تو شہریوں کی سترپوشی بے معنی ہو جاتی ہے۔ وہ پولیس اہلکار، اس نوجوان کو اسی حالت میں لے کر چلتے ہیں تاکہ گاڑی میں پٹخ سکیں اور حوالات میں پھینک سکیں۔
اس موقع پر نوجوان نے چیختے ہوئے ایک سوال پوچھا، اور کئی بار پوچھا۔ 14 سال گزر چکے ہیں، میں اس کا جواب تلاش نہیں کرپایا۔
نوجوان نے پوچھا تھا، تم لوگ مجھے بچاتے کیوں نہیں ہو؟ تم لوگ مجھے بچاتے کیوں نہیں ہو؟ کو پڑھنا جاری رکھیں