کیسے لکھیں؟ لکھنے والوں کے لیے چند ٹوٹکے

سٹیفن کنگ کے انکل کے گھر، ایک بڑا اور بہت ہی بھاری ٹول باکس تھا۔ آپ نے مستری حضرات کے پاس ٹول باکس دیکھے ہوں گے۔ ان میں خانے بنے ہوتے ہیں، جن میں اوزار رکھے جاتے ہیں۔ مستری حضرات جہاں جاتے ہیں، یہ ٹول باکس ساتھ لے کر جاتے ہیں، تاکہ کہیں کسی اوزار کی ضرورت پڑے تو نکال کر استعمال کر لیا جائے۔
لیکن سٹیفن کنگ کے انکل کے گھر جو ٹول باکس تھا، وہ ذرا مختلف تھا۔ ایک تو وہ بنا لکڑی کا ہوا تھا، دوسرا سائز میں معمول سے ذرا زیادہ بڑا تھا،اور تیسرا ،بھاری بھی بہت تھا۔
کہانی آگے بڑھانے سے پہلے بتا دوں کہ سٹیفن کنگ ، ایک جانے مانے لکھاری ہیں۔

2018 PEN Literary Gala, New York, USA - 22 May 2018

Mandatory Credit: Photo by Evan Agostini/Invision/AP/REX/Shutterstock (9689901ac) PEN America literary service award recipient Stephen King 2018 PEN Literary Gala, New York, USA – 22 May 2018

ایک دن سٹیفن صاحب اپنے انکل کے گھر گئے تو پتہ چلا

کہ ایک کمرے کی کھڑکی کا شیشہ ٹوٹا ہوا ہے۔ان کے انکل بازار سے نیا شیشہ لےآئے تھے، اور اب اسے لے جا کر فکس کرنا تھا۔ انکل نے شیشہ تو پکڑا دیا ا سٹیفن صاحب کو کہ وہ اسے لے کر جائیں اور خود بھاری بھرکم ٹول باکس اٹھا کر چل پڑے۔ ٹول باکس خاصا بھاری تھا تو انکل جی پسینے پسینے ہو گئے۔ ہانپ گئے۔
جہاں انہوں نے کھڑکی میں شیشہ نیا لگانا تھا، وہاں لے جا کر رکھ دیا ٹول باکس۔ اس ٹول باکس میں کئی خانے بنے ہوئے تھے، کسی میں ہتھوڑی پڑی تھی، کسی میں رینچ، کسی میں پلاس۔ ایسے ہی ہر خانے میں کوئی نہ کوئی اوزار پڑا تھا۔
تو انکل نے سٹیفن کنگ سے کہا، کہ ٹول باکس کھولو اور مجھے ایک پیچ کس پکڑا دو۔ سٹیفن صاحب نے پکڑایا۔ پرانا شیشہ جن پیچوں کے سہارے کھڑا تھا، انکل نے وہ نکالے، نیا شیشہ فٹ کیا، دوبارہ سے پیچ کسے، اور پیچ کس واپس ٹول باکس میں رکھ دیا۔سٹیفن کنگ نے پوچھا کہ انکل جی، آپ کوصرف ایک پیچ کس چاہیے تھا تو پورا ٹول باکس کیوں اٹھا کر لائے۔ خواہ مخواہ اتنا بوجھ اٹھایا۔تو انکل نے جواب دیا۔ اپنے ٹولز ہر وقت پاس ہونے چاہییں، تاکہ کوئی غیر متوقع کام نکل آئے تواسے ادھورا نہ چھوڑنا پڑے۔
یہ کہانی  سٹیفن کنگ صاحب نے اپنی کتاب "آن رائٹنگ” میں لکھی ہے اور  مشورہ دیا ہے کہ جو لوگ لکھنا چاہتے ہیں انہیں چاہیے کہ اپنا ٹول باکس بنائیں، اور پھر اتنے مسل بھی بنائیں کہ تھکے بغیر ٹول باکس اٹھا اٹھا کر پھر سکیں۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ کوئی مشکل کام آئے گاتو آپ مایوس ہو کر وہ کام چھوڑنے کے بجائے اپنے ٹول باکس سے مطلوبہ ٹول نکالیں گے اور کام کرنا شروع ہو جائیں گے۔
لکھاریوں کے لیے جو ٹولز، یا اوزار سٹیفن کنگ نے بتائے، ان میں سب سے پہلے نمبر پر۔۔
اپنے الفاظ کا ذخیرہ بہتر کریں۔ نئے الفاظ سیکھیں، ان کا استعمال سیکھیں۔ اور یہ سب سیکھنے کے لیے بہت زیادہ پڑھیں۔
سٹیفن کنگ لکھتے ہیں کہ میں جہاں جاتا ہوں میرے ہاتھ میں کوئی کتاب ہوتی ہے، اور مجھے جب اور جہاں موقع ملتا ہے میں پڑھنا شروع کر دیتا ہوں۔
دوسرے نمبر پر سٹیفن کنگ کہتے ہیں، کہ جس زبان میں آپ لکھ رہے ہوں اس کی گرائمر پر عبور حاصل کریں۔جملوں کی ساخت بہتر بنانے کی کوشش کریں۔
سٹیفن کنگ صاحب کہتے ہیں کہ فکشن لکھتے ہوئے، کسی صورت حال کو بیان کرنے کے بجائے اگر کرداروں کے مکالمے سے سمجھایا جائے تو یہ زیادہ بہتر ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ خواہ مخواہ کے مشکل الفاظ یا پیچیدہ جملے نہ لکھیں۔
اور جو سب سے اہم ٹپ ہے، وہ یہ ہے کہ لکھنا ہے، تو لکھنے کی مشق کریں اور بہت زیادہ کریں۔سٹیفن کنگ کہتے ہیں چند الفاظ روزانہ لکھنے کا ایک ٹارگٹ سیٹ کر لیں، اور پھر چھٹی کیے بغیر اتنے الفاظ روز لکھیں۔اپنے لیے انہوں نے یہ طے کر رکھا ہے کہ روزانہ دو ہزارالفاظ لکھتے ہیں۔اس کا حساب بھی انہوں نے بتایا کہ دو ہزار لفظ روزانہ کا مطلب ہے کہ تین مہینے میں وہ ایک لاکھ اسی ہزار کے قریب الفاظ لکھ لیتے ہیں۔ اور کسی کتاب کے لیے یہ ایک مناسب تعداد ہے۔
جو لوگ ابھی لکھنا شروع کر رہے ہیں انہیں سٹیفن صاحب نے مشورہ دیا ہےکہ چلیں آپ دو ہزار کے بجائے ایک ہزار الفاظ روز لکھ لیا کریں۔ اورچاہیں تو ہفتے میں ایک چھٹی بھی کر لیا کریں۔
بہتر ہے کسی الگ تھلگ سی جگہ پر بیٹھ کر لکھیں تاکہ آپ کی توجہ اور انہماک میں خلل نہ پڑے۔
یہ وہ چند ٹپس تھیں، جو میں نے سٹیفن کنگ کی کتاب "آن رائٹنگ”سے کشید کیں۔

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s