فیس بک پوسٹ پر پوچھا کہ جو احباب ایک ہی نشست میں پورا پورا ناول پڑھ ڈالتےہیں، یا کسی ڈرامے کا گھنٹوں پر محیط سیزن ختم کر کے اٹھتے ہیں ، کیا ان کی آنکھوں اور سر میں درد نہیں ہوتا؟ جواب میں جنہوں نے لکھا کہ انہیں آنکھ یا سر درد کی کوئی شکایت نہیں ہوتی، ان سے حسدمحسوس کیا۔ جن کا جواب اس سے الٹ آیا، ان سے یہ جان کر دل میں اطمینان سا ہوا کہ چلو! کوئی اور بھی ہے جسے یہ عارضہ لاحق ہے۔
پوچھا یوں، کہ عرصے سے دل ایسی فرصت مانگتا ہے کہ گھنٹوں بیٹھ کر (بلکہ لیٹ کر) ناول پڑھا کریں، فلمیں دیکھیں اور دنیا کا کوئی کام دھندا اس میں مخل نہ ہو۔ لیکن جب کبھی ایسی فرصت ملی، اور گھنٹوں کتاب پڑھنے یا فلم دیکھنے میں بتائے تو بجائے لطف اندوز ہونے کے، بیزار ہو کر اٹھے۔ سرکا درد اور آنکھوں کی دکھن سارے مزے کا مزا خراب کر دیتی۔
اور حاصل کلام یہ ہر چیز کسی قاعدے اور اعتدال میں ہو تو ہی ٹھیک ہے ورنہ نری اکتاہٹ ہے۔
یہ بور سی ویڈیو بھی ایسے ہی ایک تجربے کی کہانی ہے۔ جو چھ منٹ 20 سیکنڈ کی ویڈیو میں کہا ہے، کم و بیش وہی اوپر کی چند سطروں میں بھی بیان کر دیا ہے۔ ویڈیو بے شک نہ دیکھیں۔ ہاں اگر آپ پوچھنا چاہیں کہ ہمیں جرائم اور سنسنی پر مبنی ناول پسند ہیں، کیا محمد حنیف کا ناول، آ کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز پڑھنا چاہیے؟ تو میرا جواب ہو گا، اگر آپ کو کہیں سے مل گیا تو ضرور پڑھیں۔