عورت کے کوسنے

ہائے ہائے! خدا کرے تیرے پوپلے منہ میں ہوائیں اس طرح سے گھسیں کہ سیٹیاں بجنے لگیں۔
یہ کوسنے داغستان کی عورت نے ، شاعر رسول حمزاتوف کو دیے۔ کیوں دیے؟ قصہ دل چسپ ہے۔
داغستان روس کی ایک خود مختار ریاست ہے، یہاں کے شاعر رسول حمزاتوف نے ایک نظم لکھنے کی ٹھانی جس کا عنوان تھا پہاڑی عورت۔اس نظم میں انہوں نے ایک تند خو اور غصہ ور عورت کی زبان سے چند کوسنے ادا کرانے تھے۔ تو انہوں نے سوچا کسی غصے والی اور کوسنے دینےوالی عورت سے ملاقات کی جائے۔
اچھا! کوسناکا مطلب تو سب کو معلوم ہو گا ہی؟ غم و غصے کا اظہار کرنا، برا بھلا کہنا، بددعائیں دینا۔
شاعر صاحب کو پتہ چلا کہ بہت دور کے کسی پہاڑی گاؤں میں ایک ایسی عورت رہتی ہے جس کا کوسنے دینے میں کوئی جواب نہیں ہے۔ تو وہ اس سے ملنے پہنچ گئے۔ اور اسے بتایا کہ ایک نظم لکھ رہا ہوں جس میں کچھ سخت قسم کے کوسنے بھی نظم کرنے ہیں ۔ وہی سیکھنےآپ کے پاس حاضری دی ہے۔
یہ سن کر وہ عورت بھڑک اٹھی، اور غصے کی حالت میں حمزا توف صاحب کو اعلیٰ قسم کے تخلیقی کوسنے دیے۔ کہنے لگی،

خدا کرے تیری زبان میں کیڑے پڑیں۔
تیری چہیتی کو تیرا نام بھی یاد نہ رہے ۔
تیرے کاروباری ساتھی تیری بات تک سمجھ نہ پائیں۔
خدا کرے تو سفر سے لوٹے تو گاؤں والوں کو سلام کرنا بھول جائے ۔
خدا کرے تیرے پوپلے منہ میں ہوائیں اس طرح گھسیں کہ سیٹیاں بجنے لگیں۔
اب آپ اندازہ لگائیں کہ ان کوسنوں میں کس تخلیقی انداز سے بددعائیں دی گئی ہیں۔
تیری چہیتی کو تیرا نام بھی یاد نہ رہے۔۔ یعنی تیری لو لائف اینڈ ہو جائے۔ تیری محبوبہ صرف تجھے نہ بھولے، بلکہ تیرا نام تک بھول جائے۔
تیرے کاروباری ساتھی تیری بات تک سمجھ نہ پائیں۔۔ یعنی پہلے تیرے دماغ میں کوئی خلل پیدا ہو۔ تو اپنے کاروباری ساتھیوں سے جو بات کرے وہ انہیں سمجھ ہی نہ آئے۔نتیجتاًتیرا کاروبار تباہ ہو جائے۔
خدا کرے تیرے پوپلے منہ میں ہوائیں اس طرح گھسیں کہ سیٹیاں بجنے لگیں۔ ۔یعنی پہلے تو تیرے سارے دانت گر جائیں، اس کے بعد تو تیز ہواؤں کی زد میں آ جائے، اور وہ ہوائیں اتنی تیزی سے تیرے پوپلے منہ گھسیں کہ سیٹیاں بجنے کی آوازیں آئیں۔
ان بددعاؤں میں تصورات کا ایک جہان ہے۔۔
اب سوال یہ ہے کہ عورت کوشاعر حمزا توف پر غصہ آیا کیوں تھا؟
عورت نے کہا، میں کس طرح ہنس سکتی ہوں جب میرا دل خوش نہ ہو ۔ اور گھر میں مردہ نہ پڑا ہو تو رونے کا کیا فائدہ۔ یعنی، بغیر وجہ کے نہ تو میں خوش ہو سکتی ہوں، نہ ہی غمگین ہو سکتی ہوں۔
اس کے بعد کہا، جب کسی نے نہ میرا نقصان کیا، نہ میری بے عزتی کی تو میں صرف تجھے سنانے کے لیے کیوں اپنی زبان خراب کروں؟ چل دور ہو جا!اس قسم کی واہیات فرمائش لے کر دوبارہ یہاں نہ آنا۔
یہ سن کر حمزا توف لوٹ آئے اور یہی سوچتے رہے کہ وہ بی بی کسی اشتعال کے بغیر کوسنوں کی بارش کر سکتی ہے، تو اگر اسے واقعی غصہ آ جاتا پھر وہ میرا کیا حال کرتی؟
یہ واقعہ رسول حمزا توف نے اپنے ناول میں لکھا جس کا نام ہے میرا داغستان۔ اور اس ناول کا اردو ترجمہ بک کارنر جہلم نے شائع کیا ہے۔کتاب منگوانے کا لنک ہے

https://www.bookcorner.com.pk/book/mera-daghestan-graphic-edition

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s