Category Archives: خواہ مخواہ
برطانیہ میں بلوائیوں کے ساتھ کیا ہوا؟
گزرا سال اور نئے ارادے
سبز لباس والی خاتون کے لیے دعا
لاہور کے میاں میر دربار میں سبز لباس پہنے، دعا مانگتی وہ خاتون مجھے سب سے الگ لگیں۔ میرے دل سے دعا نکلی، ان کی جو بھی مراد ہے وہ پوری ہو جائے۔
شہر دل پذیر کو پیدل چھانتے ہوئے آج میں نے فورٹریس اسٹیڈیم سے دربار میاں میر جانا ہے۔ نہر کو جانے والی انفنٹری روڈ پکڑوں تو آسانی سے منزل کو پہنچ جاؤں گا۔ میں پا پیادہ تو ہوں، لیکن سویلین ہونے کی وجہ سے فوجی اصطلاح والی سڑک پر چلنے سے گھبراتا ہوں۔ اس لیے نہر کی طرف منہ کر کے میاں میر کے نام سے منسوب پل عبور کرتا ہوں اور دائیں ہاتھ موجود آبادی میں داخل ہو جاتا ہوں۔ کشادہ مرکزی سڑک سے جتنا دور ہوتے جائیں، گلیوں کی تنگی اتنی ہی بڑھتی جاتی ہے۔ سیدھی سیدھی انفنٹری روڈ پکڑی ہوتی تو لیفٹ رائٹ مارچ کرتا پہنچ جاتا، لیکن یہاں ہر موڑ پر راستہ پوچھنا پڑ رہا ہے۔ مجھے بتایا جاتا ہے کہ آگے جا کر سیدھے مڑنا ہے اور پھر فوراً بائیں ہاتھ ہو جانا ہے۔ میں جواب دیتا ہوں کہ زیادہ دیر تک سیدھے رستے پرویسے بھی نہیں چل سکتا۔
ذرا سا آگے ریلوے لائن آ گئی ہے اور میں اس کےساتھ ساتھ آگے بڑھ رہا ہوں۔ وہاں جانور بندھے سبزہ کھا رہے ہیں اور انہیں چارہ ڈالنے والے مضر صحت حقے گڑگڑا رہےہیں۔ یہاں میں نے پھر راستہ پوچھا ہے اور رہ نما نے قبرستان سے گزرنے کا مشورہ دے دیا ہے۔ قبرستان سے گزرتے ہوئے مجھے ایک نسبتاً چوڑی قبر نظر آتی ہے جس پر دو کتبے لگے ہیں۔ میں رک کر پڑھتا ہوں، یہ قبر راجہ سید محمد اور ان کی زوجہ رضیہ بیگم کی ہے۔ راجہ صاحب نے دوجنوری 1989کو وفات پائی۔ رضیہ بیگم 30سال جدائی کے بعد 11نومبر2019کو ان سے جا ملیں۔ میں دونوں کے درجات بلند ہونے کی دعا کرتا ہوں اور آگے بڑھ جاتا ہوں۔
اب میری منزل قریب ہے۔ ذراسی دیر میں مجھے ایک دروازہ نظر آ گیا ہے جس پر لکھا ہے، درگاہ حضرت میاں میر رحمت اللہ علیہ ۔۔ ۔ لیکن یہ کیا؟ دروازہ توبند ہے۔ بھلا اللہ والوں کے دروازے بھی کبھی بند ہوئے ہیں؟ اس سے زیادہ حیرت مجھے بند دروازے کے ساتھ لکھی تحریر پڑھ کر ہوئی ہے۔ لکھا ہے۔۔۔وی آئی پی گیٹ۔ وہ میاں میر جو وقت کے حاکموں کو جوتے کی نوک پر رکھتے تھے آج ان کے دربار میں حاضری کے لیے خاص افراد کا دروازہ بھی الگ ہو چکا ہے۔ میری منزل سامنے ہے، لیکن اسے پانے کے راستے میں وی آئی پی کلچر حائل ہے۔ میں پھر کسی سے پوچھتا ہوں، بتایا جاتا ہے عام افراد کا داخلہ دوسری طرف سے ہوتا ہے۔
وہاں پہنچ کر دیکھتا ہوں عقیدت مندوں کی چہل پہل ہے۔ جوتے داخلی دروازے پر جمع کرانے ہیں۔ پاپوش کی نگرانی پر مامور اہل کار سے پوچھتا ہوں اس کا معاوضہ کتنا ہو گا؟ وہ جواب دیتا ہے جتنے مرضی دے دیں، لیکن آپ سے لال نوٹ لوں گا۔ میں ادھر ادھر نظر دوڑاتا ہوں، ایک بورڈ پر لکھا ہے جوتے رکھوانے کی قیمت 10روپے ۔ میں اہل کار کو بتاتا ہوں، وہ پھر کندھے اچکا کر کہتا ہے، آپ کی جتنی مرضی ہوئی آپ اتنے دے دیجیے گا۔ اندر داخل ہوں اور مزار کے گرد چکر لگائیں تو جھاڑو لگاتے کئی افراد آپ سے معاوضے کے طلب گار ہوں گے۔ میں پھر حیران ہوتا ہوں۔ ولی اللہ کےدربار پر خدمت گاروں کو دنیا والوں سے مانگنا پڑ رہا ہے۔ عقیدت تو جنت تک پہنچاتی ہے، لیکن پیٹ کا جہنم راستے کا گڑھا بن جاتا ہے۔
اب میں نے مزار پر جا کر فاتحہ پڑھ لی ہے اور دیگر زائرین کا مشاہدہ کر رہا ہوں۔ دیکھتا ہوں کہ ہر فرد اپنی زندگی میں موجود خیالات، خواہشات اور نظریات کو لے کر یہاں آیا ہے۔ کوئی دربار کے داخلی دروازے پر ہی جھک کر اپنی انگلیاں چوکھٹ سے چھوتا ہے اور آنکھوں سے لگاتا ہے۔ کوئی اندر مزار کے داخلی دروازے پر یہ عمل کرتا ہے۔ مزار سے لوٹنے والے یہ اہتمام بھی کرتے ہیں کہ قبر کی طرف کمر نہ ہونے پائے۔ ہر کسی کی ارادت کا اپناطریقہ ہے۔ کوئی تھوڑے فاصلےپر بیٹھا مزار پر نظریں جمائے ہوئے ہے۔ کوئی مزار کی طرف اٹھتی سیڑھیوں سے ٹیک لگائے ہوئے ہے۔ ایک طرف میاں بیوی اپنی بچی کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ ان کے سامنے مومی لفافے میں گلابی رنگ کا ایک ڈبا دھرا ہے۔ بچی جھک کر ڈبے کو دیکھ رہی ہے اور ماں اس کے سر سے جوئیں نکال رہی ہے۔ شاید وہ اس بچی کےلیے ”بس ایک بھائی“ کی خواہش لے کر مزار پر آئے ہیں۔ وہیں ایک خاندان ایسا بھی ہے جو اپنے ڈھیر سارے بچے ساتھ لایا ہے۔ شاید اب وہ اولاد کی اس فراوانی پر، دینے والے سے پالنے کےلیے مزید وسائل مانگ رہے ہیں۔ برقع پوش خاتون کے ساتھ آئے ایک مرد تو لاتعلقی سے اپنے موبائل فون میں گم ہیں۔ شاید ان کے نیٹ ورک نے ابھی مطلوبہ سگنل نہیں پکڑے ہیں۔
لیکن ہلکا سبز لباس پہنے وہ خاتون ان سب سے الگ ہیں۔ مزار ایک چبوترے پر بنایا گیا ہے۔ سیڑھیاں چڑھ کر جائیں تو چبوترے کے چاروں طرف جنگلا لگا ہے۔ خاتون اس جنگلے کے سہارے بیٹھی ہیں، چہرہ ہاتھوں سے ڈھانپ رکھا ہے اور کوئی دعا مانگ رہی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم ان کی کیا حاجت ہے۔ کوئی مرادہے بھی یا بس یوں ہی خدا کی خوش نودی کی خاطر اس کے آگے اشک ریز ہیں۔ہو سکتا ہے وہ کسی بیمار کے لیے تندرستی مانگ رہی ہوں۔ کسی روٹھنے والے کی واپسی مانگ رہی ہوں۔ کسی کڑے امتحان میں کامیابی مانگ رہی ہوں۔حلال رزق اور آمدن کا کوئی وسیلہ مانگ رہی ہوں۔
میں انہیں بس ایک نظر دیکھتا ہوں اور آگے بڑھ جاتا ہوں، لیکن ان کا انداز میرے ذہن پر نقش ہو جاتا ہے۔ ان کے عجز اور استغراق میں کچھ ایسا ضرورہےکہ میرے دل سے دعا نکلتی ہے، احتیاج پوری کرنے والے رب! میری اس ماں، بہن یا بیٹی کی جو بھی جائز ضرورت ہے، اپنے لامحدود خزانوں سے پوری کر دیں۔ سات مئی 2023 کی شام، سبز لباس والی بی بی نے جو بھی مانگا ہے۔۔ اے میرے رب، انہیں عطا کر دیں۔
میں حضرت میاں میر کےدربار سے نکلتا ہوں اور انفنٹری روڈ پر ہو لیتا ہوں۔ صبح کا بھولا شام کو گھر جانے لگے تو سیدھا رستہ جلدی پہنچا دیتا ہے۔
چلتے ہو تو لاہور میں چلیے
لاہور میں پیدل چلنا بھی ایک منفرد تجربہ ہے۔
مال روڈ پر نہر سے چڑیا گھر کی طرف جائیں تو پہلے اشارے پر ایک بورڈ لگا ہے۔ بورڈ بتاتا ہے کہ دائیں ہاتھ سرآغا خان روڈ ہے، لاہوری کہتےہیں نہیں، یہ تو ڈیوس روڈ ہے۔ آپ ڈیوس روڈ پر آگے بڑھیں گے تو ایک پرفضا پہاڑی مقام آئے گا۔ یہ شملہ پہاڑی ہے۔ اسے دیکھ کر سر پر باندھنے والا شملہ بھی یاد آتا ہے، اور پاکستان ٹوٹنے کےبعد بھارت کے شہر شملہ میں ہوا امن معاہدہ بھی ۔ پہاڑی کے پہلو میں صحافیوں کا کلب ہے۔ بااختیار افراد کے ستائے مظلوم اسی کلب کے سامنے احتجاج کرتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ ان کی صدا میڈیا کے ذریعے ارباب اختیار تک پہنچائی جائے گی۔ وہ ابھی تک سیکھ نہیں پائے کہ اس ملک میں صرف اسی کی سنی جاتی ہے جو دولت مند ہو، یا جتھ بند ہو۔
مظاہرین کی صداؤں سے کان بند کرتے ہوئے ایمپریس روڈ پر ہو لیجیے، تو بائیں ہاتھ ریڈیو پاکستان کی عمارت آئے گی۔ ففتھ جنریشن کی جنگوں سے پہلے جنگی نغمے یہیں سے نشر ہوتے تھے۔ یہاں سے آگے جائیں گے تو پولیس والے ہر کسی کو مشکوک نگاہوں سے دیکھ رہے ہوں گے۔ یہ پولیس لائنز قلعہ گجر سنگھ ہے۔ یہاں سے نظریں چرا کر آگے بڑھ جائیے تو دائیں ہاتھ ایک عمارت ہے۔ یہاں رک پر آپ ہنس پڑیں گے۔ کیوں کہ عمارت کی بیرونی دیوار پر لکھا ہے ۔۔۔پاکستان ریلوے، ہر وقت۔بروقت۔۔۔ یہ مضحکہ خیز دعویٰ پڑھ کر ایک ریلوے انجن تو ایسا حواس باختہ ہوا کہ اپنی جگہ جم کر رہ گیا۔ اور آج تک ہٹایا نہیں جا سکا۔ جہاں یہ عبارت درج ہے، اور جہاں یہ انجن کھڑا ہے۔۔یہ ریلوے ہیڈکوارٹرز ہے۔ نہ یہ انجن چلتا ہے اور نہ ہی محکمہ ریلوے۔
اس سڑک کو ایمپریس روڈ یقیناً ملکہ برطانیہ کی نسبت سے کہا جاتا ہو گا۔ آپ مہاراجہ کی طرح مزید آگے چلیں گے تو کشادہ کشادہ سی ایمپریس روڈ تنگ ہوتی محسوس ہوگی۔ یہاں سڑک کی تین لینزمیں سے ڈیڑھ پر ریڑھیاں کھڑی ہیں اور ریڑھیوں پر لنڈے کا مال سجا ہے۔ برطانوی استعمار کی نشانی ایمپریس روڈ یہاں آ کر غریب پرور بن چکی ہے۔ یہاں سے تن ڈھانپنے کو وہ کپڑا ملتا ہے جو سفید پوشی کا بھرم رکھتا ہے۔
انگریز برصغیر پر قابض ہوا تھا۔ انگریزوں کی اترن بیچنے والے اس سڑک کے بڑے حصے پر قابض ہیں۔ گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں پر سوار کچھ تو یہاں سے بچ بچا کر گزر جاتے ہیں، کچھ سڑک کے درمیان ہی سہولت سے اپنی سواری کھڑی کر کے خریداری کرتے ہیں۔اس وجہ سے یہاں ٹریفک رک رک کر، لیکن وقت اپنی رفتار سے ہی چلتا جاتا ہے۔ انہی ریڑھیوں کے درمیان ذرا آگے بڑھیں گے تو ایمپریس روڈ اور نکلسن روڈ آپس میں گلے مل رہی ہوں گی۔ اس چوراہے پر دائیں ہاتھ لنڈابازار ہے۔ یہاں نئے پرانے جوتے، بیگ، گھڑیاں،سجاوٹ کا سامان ، برتن وغیرہ بھی ملتے ہیں۔ یہیں ایک ریڑھی پر قسم قسم کی مورتیاں بے حس و حرکت کھڑی ہیں۔ شاید یہ اس دیس سے آئی ہیں جہاں پیچھے مڑ کر دیکھنےوالا پتھر ہو جاتا ہے۔
اس لنڈا بازار کے ایک کونے میں چائے کا ڈھابہ بھی ہے۔ دیگچی میں ابلتی چائے آپ کی طلب بڑھا دے گی۔ آپ ڈھابے والے سے ایک کپ چائے مانگیں گے اور چینی کم ڈالنے کی تاکید کریں گے۔ وہ آپ کی صرف پہلی بات سنے گا، کیوں کہ بے تحاشا چینی وہ پہلے ہی دیگچی میں ڈال چکا ہے۔
چائے پینے کے بعد آپ تازہ دم ہو چکے ہوں گے۔ تو لنڈا بازار سے نکل کر نکلسن روڈ پکڑ لیجیے۔ یہیں بائیں ہاتھ دارالحجاج ہے۔ جنہیں بلاوا آتا ہے وہ یہاں حاضری کے آداب سیکھتےہیں۔ آپ کا ابھی بلاوا نہیں آیا، ابھی آپ نے مزید دعائیں کرنی ہیں۔ نکلسن روڈ کے درمیان ہی سڑک پر ستون گڑے ہیں۔ اوپر پٹڑی بچھائی گئی ہے۔ پٹڑی پر اورنج لائن میٹرو ٹرین آتی اور جاتی ہے۔ اس جدید ٹرین کے نیچے رہنےوالی دنیا ابھی تک قدیم ہی ہے۔ یہی نکلسن روڈ آگے چل کر میکلوڈ روڈ بن جاتی ہےاور انسانوں کے ساتھ ساتھ کھانوں کو بھی ذات پات اور علاقوں میں تقسیم کر دیتی ہے۔ کہیں کڑاہی، بٹ بن جاتی ہے، کوئی چائے اعلان کرتی ہے کہ وہ کوئٹہ کی ہے۔ ایک ریستوران تو براعظمی نوعیت کا ہے، اس کا نام پاک ایشیا ہے۔
آگے بڑھتے جائیں تو لاہور کا مرکزی ڈاک خانہ آ جائے گا۔ سیاں کو لکھی چٹھیاں یہیں سے لاپتہ ہوتی ہیں۔ لاپتہ انصاف کو ڈھونڈ کر دینے والی عدالت بھی ڈاک خانے کے سامنے ہے۔ اس عمارت سے کسی کو انصاف ملتا ہے، اور کسی کو لامتناہی انتظار۔ یہاں سے استاد اللہ بخش روڈ پر آگے جائیں تو جو آمدن آپ کماتے نہیں اس پر بھی محصول وصول کرنے والے کسٹمز اور ٹیکس کے دفاتر ہیں۔ ٹیکس نہیں دینا، کم دینا ہے، یا اتنا ہی دینا ہے جتنا بنتا ہے تو کسٹم ہاؤس کے ساتھ ہی قدیم سی عمارت میں چلے جائیں۔ اس پر ”نعیم اینڈ کمپنی، پبلک اکاؤنٹنٹس، آڈیٹرز،رجسٹرڈ انکم ٹیکس پریکٹیشنرز “ کا بورڈ لگا ہے۔ بورڈ پر درج عبارت کے مطابق کمپنی بنے تو صدی ہو چلی، جس عمارت میں یہ کمپنی ہے وہ جانے کب بنی ہو گی۔
اس عمارت کودیکھ کر لگے گا کہ شاید آپ کو بھی چلتے چلتے صدیاں بیت گئی ہیں۔ لنڈے بازار کی چائے سے جو توانائی آپ نے لی تھی، یہاں تک پہنچتے پہنچتے وہ بھی دم توڑ چکی ہو گی۔ تو واپسی کا قصد کیجیے اور ارادہ باندھیے کہ پھر کسی اور روز،لاہور کے کسی اور مقام پر پیدل گشت کیا جائے گا۔
لاہور کی جن سڑکوں سے گاڑیوں یا موٹرسائیکلوں پر آپ زن سے گزر جاتے ہیں، کبھی یہاں پیدل چلنے کا تجربہ کیجیے۔ الگ ہی احساس ہو گا۔ ایک احساس تو یہ ہو گا کہ یہ مہربان شہر پیدل چلنے والوں کےلیے خاصا نامہربان ہے۔ چلنے والوں کےلیے فٹ پاتھ اول تو کوئی ہے نہیں۔ جہاں ہے، وہاں بھی کسی نے گاڑی چڑھا رکھی ہے اور کسی نے ٹھیا بنا رکھا ہے۔ جس کو ہو جان و دل عزیز، وہ پیدل یہاں سے جائے کیوں؟ لیکن لاہور جیسے شہر دل پذیر کو چھاننے کے لیے جان و دل کی پروا کون کرتا ہے۔

لاہور میں ایک افغان سے گفتگو
جب میں نے پہلی بار سانڈا دیکھا