گٹر، اتری شلوار، مجھے بچاتے کیوں نہیں ہو؟

اس کی چیخیں آج بھی مجھے پکارتی ہیں۔
وہ تاریخ ،حتیٰ کہ سال تک بھول گیا ہوں، جب پہلی دفعہ اسے چیختے سنا۔ایک منٹ دورانیے کا ویڈیو کلپ آج بھی میرا پیچھا کر تا ہے۔
شاید یہ 2007 کے آس پاس کی بات ہے۔ آمنہ مسعود جنجوعہ اپنے لاپتہ شوہر کی بازیابی کے لیے مظاہرہ کر رہی تھیں۔ ان کا بیٹا بھی ان کے ساتھ تھا، اور تب اس کی عمر 16 سال کے لگ بھگ ہو گی۔
نہ معلوم کیوں، ریاست کے کارندوں نے فیصلہ کیا کہ شہری لاپتہ کرنا بھلے جرم ہو گا، لیکن اس کا پتہ پوچھنا ضرور قابل گرفت ہے۔ درجن بھر اہلکاروں نے نوجوان نہتے لڑکے کو قابو کر لیا، اور جب لے کر چلے تو مزاحمت کےدوران بے چارے کی شلوار اتر گئ۔
شاید اس وقت کسی نے کہا بھی کہ لڑکے کو شلوار پہن لینے دو۔ لیکن جب ریاست ہی برہنہ ہو جائے تو شہریوں کی سترپوشی بے معنی ہو جاتی ہے۔ وہ پولیس اہلکار، اس نوجوان کو اسی حالت میں لے کر چلتے ہیں تاکہ گاڑی میں پٹخ سکیں اور حوالات میں پھینک سکیں۔
اس موقع پر نوجوان نے چیختے ہوئے ایک سوال پوچھا، اور کئی بار پوچھا۔ 14 سال گزر چکے ہیں، میں اس کا جواب تلاش نہیں کرپایا۔
نوجوان نے پوچھا تھا، تم لوگ مجھے بچاتے کیوں نہیں ہو؟ تم لوگ مجھے بچاتے کیوں نہیں ہو؟ کو پڑھنا جاری رکھیں

براڈشیٹ کیس: شریف فیملی کے 80 کروڑ ڈالر، تحریک انصاف کے وزراء جھوٹ بول رہےہیں

تحریک انصاف کے وزراء کہہ رہے ہیں کہ شریف خاندان کے بیرون ملک 76 اثاثے ہیں جن کی مالیت 86 کروڑ ڈالر ہے۔ وزراء کے دعوے کے مطابق یہ بات براڈشیٹ کیس میں برطانوی عدالت کے فیصلے سے ثابت ہو گئی ہے۔
سینیئر صحافی فہد حسین نے 20جنوری 2021کو روزنامہ ڈان میں بہت تفصیل سے برطانوی عدالت کےفیصلے کا جائزہ لیا ہے۔ جسے پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے وزراء کس طرح غلط بیانی کر رہے ہیں۔
اردو قارئین کی سہولت کے لیے فہد حسین کی تحریر کا ترجمہ کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔
اصل متن سے پہلے مختصرپس منظر، ان لوگوں کے لیے جو براڈشیٹ کیس کےبارے میں نہیں جانتے۔
براڈشیٹ ایک کمپنی ہے جس کادعویٰ ہے کہ وہ بے نامی اثاثوں کی کھوج لگاتی ہے۔ مشرف دور میں اس سے معاہدہ کیاگیاکہ پاکستانیوں کے بیرون ملک پوشیدہ اثاثوں کا پتہ چلائے گی۔ ڈیل یہ تھی کہ براڈشیٹ جتنے اثاثوں کا پتہ چلائے گی، ان کا 20 فیصد اپنے معاوضے کے طور پر وصول کرے گی۔
2003میں نیب نےبراڈشیٹ سے یہ معاہدہ ختم کردیا (جن پاکستانی سیاست دانوں کے اثاثوں کا اس کمپنی نے کھوج لگایا، وہ حکومت کا حصہ بن گئے۔ سمجھا جاتا ہے کہ مشرف کی حمایت کی قیمت کیس ختم کرانے کی صورت وصول کی گئی)
نیب نے معاہدہ ختم کیا تو براڈشیٹ اس کے خلاف برطانوی عدالت میں چلی گئی۔ برطانوی عدالت نے براڈشیٹ کے حق میں فیصلہ دیا، اور دسمبر 2020میں نیب کو ساڑھے چار ارب روپے کے قریب جرمانہ ادا کرنا پڑا۔ جو ظاہر ہے حکومت پاکستان کی طرف سے ادا کیا گیا، اور عوام کی جیبوں سے گیا۔
جب حکومت پاکستان کو اپوزیشن کی تنقیداور عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑاتو اس نے براڈشیٹ کا فیصلہ منظر عام پر لانے کا فیصلہ کیا۔ اور ساتھ ہی اس فیصلے کو اپوزیشن کی کرپشن کا ثبوت قرار دیا۔
اب فہد حسین کی تحریر کا ترجمہ
حکومت براڈشیٹ کیس کا فیصلہ منظر عام پر لے آئی ہے۔ یہ فیصلہ پاکستان کی قانونی کارکردگی پر فرد جرم ہے۔ یہ فیصلہ دو دہائیوں میں حکومتوں اور نیب کی نااہلی اور سیاسی دھوکا دہی آشکار کرتا ہے۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

سموسے اور شاباش

پاکستان سپر لیگ کا فائنل لاہور میں ہوا تو اس ہنگام ہمارے ٹیلی وژن چینل نے بھی دھوم دھام سے ٹرانسمش کی۔ اسی کی شاباش دینے کوIMG_20170309_174251 ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ لہذا نیوز روم رنگ رنگ کی لڑیوں اور غباروں سے سجایا گیا۔ خبر کو تخلیقی اور تکنیکی اعتبار سے پیش کرنے والے سبھی افراد نے رونق بخشی۔
ادھر تقریب کی تیاریاں جاری تھیں، اُدھر احباب تصویریں لے رہے تھے۔ ندیم زعیم صاحب بھی بھاری بھرکم کیمرہ اٹھائے عکاسی کرتے پھرتے تھے۔ بھانت بھانت کے لوگ سہج کر سامنے کھڑے ہوتے، یہ کھٹ سے وہ لمحہ قید کر لیتے۔
پھر بیورو سے دوستوں کی آمد شروع ہوئی۔ خبروں کے لیے جن سے روز رابطہ رہتا ہے ان سے ملاقات کا بھی اہتمام ہوا۔
رفتہ رفتہ وسیع و عریض نیوز روم یوں بھر گیا کہ تل دھرنے کو جگہ نہ رہی۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

کون خریدتا ہے یہ؟

لاہور میں نیلا گنبد سے نسبت روڈ کی طرف جائیں تو فٹ پاتھ کنارے برقی کاٹھ کباڑ فروخت ہوتا نظر آئے گا۔ ٹیلے فون ریسیور، موبائل فون، ٹیبلٹ، کمپیوٹر کے اسپیکر، ہیڈ فون، ماؤس، گھڑیاں، عینکیں۔۔۔ لیکن سب کے سب ٹوٹے پھوٹے۔ ایک بھیڑ لگی ہوتی ہے، اکثر لوگوں کو کاٹھ کباڑ پھرولتے ہی دیکھا، کوئی چیز خریدتے کسی کو نہ دیکھا۔
کرچی کرچی اسکرین والی ٹیبلٹ اٹھا کر دکاندار سے پوچھا، کیوں صاحب! کتنے کا ہے؟
دو سو روپے کا۔ دکاندار نے جواب دیا۔
لیکن اسے کون خریدے گا؟ ہمارے سوال میں استعجاب تھا۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

بس دو منٹ

ہمیں ہمیشہ سے آج کا کام کل پر چھوڑنے کی عادت ہے۔ کوئی اسائنمنٹ ملی ہو تو آخر وقت تک لٹکائے رکھتے ہیں۔ جمع کرانے میں ایک دن رہ جائے تو ہول اٹھنے لگتے ہیں ۔ تب جا کر کام شروع ہوتا ہے۔ ہر گھڑی دھڑکا لگا رہتا ہے، جیسے تیسے کر کے کام مکمل کرتے ہیں، نہ تو درست طریقے سے ناقدانہ نظر ڈال پاتے ہیں نہ ہی بہتری کے لیے کوئی وقت دے پاتے ہیں۔ بس اسائمنٹ مکمل ہوتے ہی متعلقہ فرد کے حوالے کرتے ہیں اور آئندہ ایسا نہ کرنے کے لیے خود سے وعدہ کرتے ہیں۔
اور اگلی بار پھر ایسی ہی صورتحال ہوتی ہے۔یعنی خیالی منصوبے تو بہت بناتے ہیں، لیکن آج کا کام کل پر چھوڑنے کی عادت نہیں جاتی۔
ایسی ہی شش و پنج کے دوران ہمیں دو منٹ کا قانون نظر آیا۔۔۔ یہ پڑھنے کے بعد سے کافی افاقہ ہے۔ کو پڑھنا جاری رکھیں