روزنامہ ڈان کی خبر اور ایک جنرل کا پرانا انٹرویو

روزنامہ ڈان نے خبر لگائی جس سے تاثر ملا کہ عسکری ادارے ابھی بھی پاکستان میں ناپسندیدہ عناصر کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ خبر چھپنے کے بعد ہاہاکار مچ گئی۔ سوال اٹھائے گئے۔ ہم ساری دنیا کو بتا رہے ہیں کہ اب اچھے بچے بن چکے، دوسرے ممالک کے معاملات میں بالکل بھی دخل نہیں دیتے، عسکریت پسندوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی کرتے ہیں، افغانستان میں طالبان کی مدد فقط بہتان ہے۔ اورروزنامہ ڈان کی خبر ان تمام باتوں کی نفی کرتی ہے۔
خبر درست ہے تو تشویش، غلط ہے تو ندامت۔ ہم سوچنے لگے تھے کہ ریاستی اداروں نے سبق سیکھ لیا، مداخلت کی پالیسیاں بدل دی گئیں۔۔۔ لہذا خبر کے غلط ہونے کی دعا ہی مانگی۔
ایسے میں لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کا الجزیرہ ٹی وی کو دیا گیا انٹرویو یاد آیا۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

کیا ڈان کو یہ خبر لگانا چاہیے تھی؟

چھ اکتوبر 2016 کو انگریزی روزنامہ ڈان نے ایک خبر کیا دی، تردیدوں کا سیلاب سا آ گیا۔
خبر کے مطابق ایک بند کمرہ اجلاس ہوا۔ جس میں وزیراعظم نوازشریف، سیکریٹری خارجہ اعزاز چودھری، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان اختر اور دیگر سول و عسکری افسران موجود تھے۔
خبر کی تفصیل کیا بتانا۔۔۔ کہ ایک تو اس کی تردید آ چکی، دوسرا ان معاملات میں محتاط رویہ ہی تحفظ کی ضمانت ہے۔ بس سمجھانے کو اتنا کہے دیتے ہیں کہ خبر کے مطابق سول قیادت نے عسکریت پسندوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کا خواہش نما مطالبہ کیا۔ وہ عسکریت پسند جن کے بارے میں امریکا اور بھارت اکثر کارروائی کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ عسکری قیادت نے کہا بھئی آپ جسے چاہیں پکڑ لیجیے۔۔۔اس پر وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے شکایت کی، "ہم کچھ مخصوص افراد کو پکڑتے ہیں تو انہیں چھڑا لیا جاتا ہے۔” کو پڑھنا جاری رکھیں