شرمین سے شکایت کیوں؟

"دیکھ لیں، پاکستان کا نام کیا خوب روشن ہوا!”
شرمین عبید چنائے کو آسکر انعام ملنے کی خبر چلا کر فارغ ہوئے ہی تھے کہ ایک ساتھی نے طنز بھرا تبصرہ پھینکا۔
دستاویزی فلم ایسی لڑکی کی کہانی ہے، پسند کی شادی کرنے پر جس کا باپ اسے گولی مار کے دریا برد کر دیتا ہے۔ لیکن وہ لڑکی بچ جاتی ہے اور اپنے باپ کو معاف بھی کر دیتی ہے۔
شرمین کو دوسری بار فلمی دنیا کا سب سے بڑا انعام ملا تو سازشی نظریات کا طوفان آگیا۔ "کیا پاکستان میں کوئی مثبت کام نہیں ہوتا جو فلمایا جائے؟” ایک صاحب کا تبصرہ تھا۔ دوسرے بولے مثبت کام پر فلم بنی تو اسے آسکر نہیں ملے گا۔ تیسرے نے کہا ایسی فلمیں بنتی نہیں، بنوائی جاتی ہیں تاکہ پاکستان کو بدنام کیا جا سکے۔ گویا سبھی متفق تھے کہ فلم ہرگز انعام کی حقدار نہ تھی، آسکر انتظامیہ نے پاکستان کے خلاف ایک سازش کے تحت فلم کو نوازا۔
ہم نے اعتراض کرنے والے ایک صاحب سے پوچھا کیا انہوں نے فلم دیکھی ہے؟ جواب نفی میں تھا۔ پوچھا کیا آپ کے علم میں کوئی ایسی پاکستانی فلم ہے جس میں پاکستان کا مثبت چہرہ دکھایا گیا ہو اور اسے مسترد کر کے شرمین عبید کی فلم منتخب کی گئی ہو؟ ان کا جواب پھر نفی میں تھا۔ تیسرا سوال تھا، کیا ان کے پاس کوئی تقابلی جائزہ ہے، جب (مثال کے طور پر) ایک فلم پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی خوب صورتی پر بنائی گئی اور دوسری سوئٹزرلینڈ کی خوبصورتی پر، اور تعصب برتتے ہوئے سوئٹزرلینڈ کی فلم کو منتخب کیا گیا۔ جواب اس بار بھی انکار تھا۔
کو پڑھنا جاری رکھیں