تشریف لاتے ہیں جناب الو

zulfiqar-ali-bukhariیہ واقعہ آغا ناصر کی کتاب گم شدہ لوگ سے کشید کیا ہے۔ ذوالفقار علی بخاری صاحب ریڈیو پاکستان کے ڈائیریکٹر جنرل تھے اور انتظامی اور فنی لحاظ سے خاصی قد آور شخصیت کے مالک تھے۔
یعنی ریڈیو پاکستان کا اعلیٰ انتظامی عہدہ رکھنے کے ساتھ ساتھ وہ شاعر، باہنر اداکار/صداکار، اور معیاری ہدایت کار تھے۔ اور افسر ایسے دبدبے والے کہ لوگ نام سن کر تھر تھر کانپیں۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان کے حصے میں صرف تین ریڈیو اسٹیشن آئے تھے۔ مزید ریڈیو اسٹیشن قائم کرنے کے لیے تکنیکی آلات اور مشینیں دستیاب نہ تھیں۔۔۔ لیکن ذوالفقار بخاری صاحب نے پاکستان میں نشریات کی دنیا آباد کرنے کے لیے نئی ترکیب نکالی۔ ان کے انجینیئروں نے ملکوں ملکوں گھوم کر جنگ کے بچے کھچے سازوسامان سے ایسے پرزے اور آلات ڈھونڈ نکالے جس سے ملک میں نشریاتی رابطہ بحال کیا جا سکے۔ کافی سامان امریکا میں کباڑیوں کی دکانوں سے حاصل کیا گیا۔
اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے پاکستان کی نئی براڈکاسٹنگ سروس کے لیے موزوں اسٹاف کا انتخاب بھی کیا۔۔۔ یوں اپنی انتظامی صلاحیتیوں سے تھوڑے ہی عرصے میں نقشہ بدل دیا۔
بخاری صاحب کو کراچی کے براڈکاسٹنگ ہاؤس سے بہت محبت تھی۔ دن میں کئی بار چکر لگاتے اور ہر چیز کا معائنہ بذات خود کرتے۔ کبھی کینٹین میں کھانے پینے کی چیزیں ٹیسٹ کر رہے ہیں، کبھی لان میں گھاس اور پودوں کے متعلق ہدایات دے رہے ہیں اور اسٹوڈیوز تو ان کے نزدیک دنیا کی سب سے متبرک اور مقدس جگہ تھی۔ مجال ہے کہ اسٹوڈیو میں ریت کا ایک ذرہ یا لکڑی کا ایک تنکہ پڑا نظر آ جائے۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

اسلام آباد میں ہزار گز کا پلاٹ چھ ہزار روپے میں

tft-25c-kبراڈکاسٹر آغا ناصر صاحب کی کتاب گم شدہ لوگ زیر مطالعہ ہے۔ اس میں بیان کیا گیا ایک قصہ پڑھنے والا ہے ۔
1963ء میں اس وقت کے صدر ایوب خان دارلحکومت کی اسلام آباد منتقلی پر ایک ریڈیو دستاویزی پروگرام نشر کرانا چاہتے تھے۔ ان دنوں ٹیلی وژن کا وجود نہیں تھا۔۔۔ ریڈیو ہی ابلاغ کا موثر ذریعہ مانا جاتا تھا۔
پروگرام تیار کرنے کی ذمہ داری آغا ناصر صاحب کو سونپی گئی۔ زیر تعمیر اسلام آباد میں پروگرام کی ریکارڈنگ کرتے ہوئے انہیں مکینوں کے انٹرویوز میں بہت مشکل ہوئی۔
دراصل وہاں کے مکین تقریباً تمام ہی سرکاری ملازمین تھے جو کراچی سے تبادلہ ہو کر آئے تھے۔ وہ کسی صورت نئے شہر کی تعریف کو تیار نہیں تھے۔ آغا صاحب جب اسلام آباد کی زندگی، طرز بودوباش اور موسم وغیرہ کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کرتے، وہ انہیں لعن طعن کرنے لگتے۔ سب سے زیادہ مشکل بنگالیوں کے انٹرویو میں ہوئی۔ وہ اپنے مخصوص لہجہ میں بگڑ کر بولتے، "شالا ہم کو ادھر ذنگل میں لا کر چھوڑ دیا ہے۔ یہ سب پنزابی لوگوں کا کام ہے۔” کو پڑھنا جاری رکھیں