ہمیں جاسوسی ناول پڑھنے کی چاٹ اشتیاق احمد سے لگی۔ جب اشتیاق احمد کے ناول دستیاب نہ ہوتے تو فقط ناول پڑھنے کو مظہر کلیم ایم اے کی عمران سیریز بھی پڑھ ڈالتے۔ اس کے بعد عمروعیار کی کہانیوں کی باری آتی۔
جاسوسی ناول پڑھتے ہوئے بھوک لگتی نہ پیاس، کہانی ختم ہونے تک نیند ہی نہ آتی۔ کہانی ختم ہونے کے بعد بھی اسی کے سحر میں کھوئے رہتے۔ ہوم ورک میں بھی کوتاہی ہو جاتی، روز اسکول میں عزت افزائی کراتے۔
بڑے ہوئے تو سنا کہ جیسا جاسوسی ادب ابن صفی لکھ گئے ہیں ایسا کیا ہی کسی نے لکھا ہو گا۔ تھوڑے حیران ہوئے۔ یعنی ہم جیسا جاسوسی ناولوں کا رسیا ان سے ناواقف رہا۔ کیا انتظار حسین اور کیا امجد اسلام امجد، ہر کوئی اپنے کالموں میں انہی کو پاکستان کا اگاتھا کرسٹی اور آرتھر کونن ڈائل ثابت کرتا نظر آتا۔ کو پڑھنا جاری رکھیں