انصاف اور پلاٹ

14 اکتوبر 17 کے روزنامہ دی نیوز میں  خبر چھپی ہے جس کا عنوان ہے اپنے کیس کے خود ہی منصف۔ خبر کے مطابق سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ممبران کے لیے اسلام آباد میں ایک ہاؤسنگ اسکیم بنائی جا رہی ہے۔ اور سپریم کورٹ نے حکومت کو یہ ہدایات دے رکھی ہیں کہ اسکیم کے لیے نہ صرف زمین خریدی جائے بلکہ حکومت ہی وہاں ترقیاتی کام بھی کرائے۔ واضح رہے کہ کسی نجی اسکیم کے لیے زمین کی خریداری حکومت کا کام نہیں۔
ویب سائٹ پاکستان 24 ڈاٹ ٹی وی بھی اس بارے میں خبر دے چکی ہے۔ 11 اگست 17 کو شائع ہونے والی خبر کے مطابق وکیل چاہتے ہیں کہ پلاٹ کا رقبہ ایک کنال سے کسی صورت کم نہ ہو۔ اب اسلام آباد میں ہزاروں وکیلوں کے لیے ہزاروں کنال جگہ کہاں سے آئے؟ خبر کے مطابق عدالت عالیہ نے زمین ڈھونڈنے کی ذمہ داری بھی حکومت پر ہی ڈالی ہے۔ حکومت نے رہائشی اسکیم کےلیے جو جگہ تجویز کی وہاں پہلے ہی لوگ رہائش پذیر ہیں (دی نیوز کے مطابق یہ تعداد بارہ ہزار ہے)۔ خبر کے مطابق چیف جسٹس ثاقب نثار یہ کیس سن رہے تھے اور ججوں نے کھل کر سرکاری افسران پر وکیلوں کے لیے زمین حاصل کرنے کا دباؤ ڈالا۔ مجوزہ زمینوں کے مالکان بھی کیس کی سماعت کے دوران کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ ایک متاثرہ زمین مالک نے کھڑے ہو کر کہا، وکیلوں کے پلاٹوں کے لیے ہم اپنے گھر کیوں گرانے دیں؟ اس دن تو ججز نے خاموش رہ کر یہ بات سن لی لیکن اگلے روز پولیس اہلکاروں نے متاثرہ زمین مالکان کو عدالت کی عمارت میں داخل ہونے سے ہی روک دیا۔ خبر کے مطابق، کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے سرکاری اہلکاروں سے کہا، اگر زمین حاصل کرنے میں تاخیر کی گئی تو سرکاری اہلکاروں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے گی۔
اندازہ کریں۔ وکیلوں کی زمین کے لیے سرکاری اہلکاروں کو توہین عدالت کی کارروائی کی دھمکی دی گئی۔ وکیلوں کا خیال کیا گیا، ان کی وجہ سے جو بارہ ہزار افراد اپنے ٹھکانوں سے بے دخل ہوں گے، ان کا کیا ہو گا؟
چند ہزار وکیلوں کےلیے ہزاروں افراد کی چھت چھیننے کے اس منصوبے میں عدالت کی کیا دلچسپی ہے، اور کیا مفاد ہے؟
دی نیوز کی خبر کہتی ہے وکیلوں کی اس ہاؤسنگ اسکیم میں پلاٹ کے لیے اپلائی کرنے والوں میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے پچیس جج صاحبان شامل ہیں۔
دی نیوز کی خبر کے مطابق ایک ایسے جج صاحب بھی یہ کیس سنتے رہے جنہوں نے مجوزہ اسکیم میں پلاٹ کے لیے اپلائی بھی کر رکھا تھا۔ گویا خود ہی مدعی، خود ہی منصف۔ دی نیوز نے خبر میں سپریم کورٹ کے ہی ایک فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کسی فیصلے سے جج کو معمولی سا مالی فائدہ بھی ہو تو وہ جج نااہل ہو گا۔ چاہے یہ ثابت نہ بھی ہو کہ فیصلہ مالی فائدے کی وجہ سے دیا گیا۔
انصاف فراہم کرنے کے لیے بنائی گئی عدالت حکومت کو ایک ایسا کام کرنے کا حکم صادر کر رہی ہے جو حکومت کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ حکومت سرکاری منصوبوں کےلیے تو زمین حاصل کر سکتی ہے لیکن نجی منصوبے کے لیے ایسا کرنے کا کیوں کہا جا رہا ہے؟ اور سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اسکیم کےلیے مجوزہ زمین میں پہلے سے رہائش پذیر بارہ ہزار لوگ انصاف کے لیے کہاں جائیں گے؟

عمران خان کی خود غرضی

عمران خان نے 30 اکتوبر 2016 کو اسلام آباد بند کرنے کی کال دے رکھی تھی۔ بعد میں یہ تاریخ بدل کر دو نومبر کر دی گئی۔
بی بی سی کے مطابق تحریک انصاف کے سربراہ نے بتایا۔۔۔ تاریخ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات کی وجہ سے تبدیل کی گئی۔ تحریک انصاف کے رہنما حامد خان کا گروپ ان انتخابات میں حصہ لے رہا ہے۔
اگر تو بی بی سی کی خبر درست ہے، تو عمران خان کے رویے کو سادہ الفاظ میں خودغرضی ہی کہا جا سکتا ہے۔ اپنے ایک وکیل رہنما کے انتخابات کے لیے تو اسلام آباد بند کرنے کی تاریخ تبدیل کر دی۔ لیکن دو نومبر کو راولپنڈی اسلام آباد کے کئی شہریوں کے اہم کام ان کی –لاک ڈاؤن کال- کی وجہ سے رہ جائیں گے، اس کا خیال نہ کیا۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

اسلام آباد میں ہزار گز کا پلاٹ چھ ہزار روپے میں

tft-25c-kبراڈکاسٹر آغا ناصر صاحب کی کتاب گم شدہ لوگ زیر مطالعہ ہے۔ اس میں بیان کیا گیا ایک قصہ پڑھنے والا ہے ۔
1963ء میں اس وقت کے صدر ایوب خان دارلحکومت کی اسلام آباد منتقلی پر ایک ریڈیو دستاویزی پروگرام نشر کرانا چاہتے تھے۔ ان دنوں ٹیلی وژن کا وجود نہیں تھا۔۔۔ ریڈیو ہی ابلاغ کا موثر ذریعہ مانا جاتا تھا۔
پروگرام تیار کرنے کی ذمہ داری آغا ناصر صاحب کو سونپی گئی۔ زیر تعمیر اسلام آباد میں پروگرام کی ریکارڈنگ کرتے ہوئے انہیں مکینوں کے انٹرویوز میں بہت مشکل ہوئی۔
دراصل وہاں کے مکین تقریباً تمام ہی سرکاری ملازمین تھے جو کراچی سے تبادلہ ہو کر آئے تھے۔ وہ کسی صورت نئے شہر کی تعریف کو تیار نہیں تھے۔ آغا صاحب جب اسلام آباد کی زندگی، طرز بودوباش اور موسم وغیرہ کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کرتے، وہ انہیں لعن طعن کرنے لگتے۔ سب سے زیادہ مشکل بنگالیوں کے انٹرویو میں ہوئی۔ وہ اپنے مخصوص لہجہ میں بگڑ کر بولتے، "شالا ہم کو ادھر ذنگل میں لا کر چھوڑ دیا ہے۔ یہ سب پنزابی لوگوں کا کام ہے۔” کو پڑھنا جاری رکھیں