Tag Archives: Justice
پاکستان میں انصاف: دو سچی کہانیاں
گٹر، اتری شلوار، مجھے بچاتے کیوں نہیں ہو؟
اس کی چیخیں آج بھی مجھے پکارتی ہیں۔
وہ تاریخ ،حتیٰ کہ سال تک بھول گیا ہوں، جب پہلی دفعہ اسے چیختے سنا۔ایک منٹ دورانیے کا ویڈیو کلپ آج بھی میرا پیچھا کر تا ہے۔
شاید یہ 2007 کے آس پاس کی بات ہے۔ آمنہ مسعود جنجوعہ اپنے لاپتہ شوہر کی بازیابی کے لیے مظاہرہ کر رہی تھیں۔ ان کا بیٹا بھی ان کے ساتھ تھا، اور تب اس کی عمر 16 سال کے لگ بھگ ہو گی۔
نہ معلوم کیوں، ریاست کے کارندوں نے فیصلہ کیا کہ شہری لاپتہ کرنا بھلے جرم ہو گا، لیکن اس کا پتہ پوچھنا ضرور قابل گرفت ہے۔ درجن بھر اہلکاروں نے نوجوان نہتے لڑکے کو قابو کر لیا، اور جب لے کر چلے تو مزاحمت کےدوران بے چارے کی شلوار اتر گئ۔
شاید اس وقت کسی نے کہا بھی کہ لڑکے کو شلوار پہن لینے دو۔ لیکن جب ریاست ہی برہنہ ہو جائے تو شہریوں کی سترپوشی بے معنی ہو جاتی ہے۔ وہ پولیس اہلکار، اس نوجوان کو اسی حالت میں لے کر چلتے ہیں تاکہ گاڑی میں پٹخ سکیں اور حوالات میں پھینک سکیں۔
اس موقع پر نوجوان نے چیختے ہوئے ایک سوال پوچھا، اور کئی بار پوچھا۔ 14 سال گزر چکے ہیں، میں اس کا جواب تلاش نہیں کرپایا۔
نوجوان نے پوچھا تھا، تم لوگ مجھے بچاتے کیوں نہیں ہو؟ تم لوگ مجھے بچاتے کیوں نہیں ہو؟ کو پڑھنا جاری رکھیں
کیا عدالت ہی قصور وار ہے؟
نشان عبرت بنانے کے بجائے چھوڑ کیوں دیا؟
دو قسم کے انصاف
انصاف کی ستم ظریفی دیکھیے۔ عمران خان نے اپنے سیاسی کزن طاہر القادری کے ساتھ اسلام آباد پر چڑھائی کی تو ایک پولیس افسر عصمت اللہ پر حملہ کیا گیا، جس سے وہ زخمی ہوگئے۔ عمران خان اس حملے کے ملزم ٹھہرے۔ ان پر عدالت میں کیس چلانے کی کوشش کی گئی اور وہ قریب ساڑھے تین سال تک عدالت میں پیش ہی نہ ہوئے۔
آخر کار جب پیش ہوئے تو انہیں مقدمے سے بری کر دیا گیا۔ بری کرنے کی وجہ بھی دلچسپ ہے۔ عدالت نے کہا، ملزم کی جائے وقوعہ پر موجودگی ثابت نہیں ہوئی۔ اور یہ ثابت بھی نہیں ہوتا کہ عمران خان نے لوگوں کو پولیس افسر پر حملے کے لیے اکسایا ہو۔ حالانکہ تقاریر میں وہ انتظامیہ کے افسران کو کھلے عام دھمکیاں دے چکے تھے۔ اور جائے وقوعہ پر موجودگی ثابت نہ ہونا بھی سمجھ نہیں آتا۔
خیر، ایک افسوس ناک واقعہ 2007 کو بھی پیش آیا تھا۔ اْس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لیے گھر سے نکلے تو پولیس اہلکاروں نے ان سے بدسلوکی کی۔ اس دوران افتخار چودھری کو بالوں سے کھینچا گیا۔ واقعے کو گیارہ سال گزرنے کے بعد سزائیں دی گئیں۔ سابق آئی جی اسلام آباد افتخار احمد کو پندرہ روز کے لیے جیل بھیجا گیا۔ حاضر سروس ڈی ایس پی رخسار مہدی، ایس ایس پی موٹروے جمیل ہاشمی، نیشنل سکیورٹی ڈویژن میں ایڈیشنل سیکرٹری اور سابق ایس ایس پی اسلام آباد کیپٹن ریٹائرڈ ظفر، چار پولیس اہلکاروں کو ایک ایک ماہ کےلیے قید کر لیاگیا۔ سابق چیف کمشنر اسلام آباد خالد پرویز، سابق ڈپٹی کمشنر اسلام آباد چودھری ایم علی کو عدالت برخاست ہونے تک علامتی سزا سنائی گئی۔
فیصلہ آتے ہی بدسلوکی کے مجرموں کو فوری طور پر حراست میں لے لیا گیا۔
جتنے مرضی آپریشن کرلیں
وہ عورت تو کراچی میں رو رہی ہے، پھر میرا منظر کیوں دھندلا گیا ہے۔ حکومت نے تمام اداروں کو آئین کے دائرے میں رہنے کی تلقین کر دی ہے۔ ٹی وی اسکرین پر یہ خبر چنگھاڑ رہی ہے، لیکن میرے گردوپیش میں ایک نمی سی در آئی ہے۔ میں خبر کے کرارے پن سے لطف نہیں اٹھا پا رہا۔
عدالت کا فیصلہ آیا، ریلوے کی زمین پر بنے فلیٹ غیر قانونی ہیں، چوبیس گھنٹے میں خالی کرا لیے جائیں۔ معاملہ سر تا پا خبریت تھا، فوراً رپورٹر اور کیمرے دوڑائے۔ عدالتی حکم کے بعد کیا کارروائی کی جاتی ہے، یہ دیکھنے اور رپورٹ کرنے کے لیے سب نے کمر کس لی۔
وہاں موجود بہت سے لوگوں کی باتیں نشر کیں، کہیں افسوس تھا، کہیں شکایت تھی، غصہ تھا، جھنجھلاہٹ بھی تھی۔۔۔ لیکن اس بوڑھی عورت کے گریے میں کچھ اور بھی تھا۔ عمر بھر کی کمائی لٹ جانے کا صدمہ، سر کی چھت چھن جانے کا ملال، ناامیدی، خوف، فریاد۔ کو پڑھنا جاری رکھیں