جب مشرف کو ترکی میں ڈانٹ پڑی

mush-returnsکرامت اللہ غوری اپنی کتاب بارشناسائی میں لکھتے ہیں، منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد پرویز مشرف نے ترکی جانے کی ٹھانی۔
اتفاق سے اس وقت ترکی کے صدر اور وزیراعظم دونوں اپنی فوج کے ہاتھوں ڈسے ہوئے تھے۔
لہذا پہلی ہی ملاقات میں ترک صدر سلیمان دیمرل نے پرویز مشرف کو کھری کھری سنائیں۔ انہوں نے کہا، "جنرل! مجھے عملی سیاست میں پچاس برس سے زیادہ ہو چکے ہیں اور اس طویل عرصے میں جس عمل نے میرے ملک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا، وہ سیاست میں فوج کی مداخلت ہے۔ ہمارے جرنیلوں کے دماغ میں بھی یہ خناس تھا کہ وہ ملک کو سدھار سکتے ہیں لیکن ہر بار وہ جب اپنا تماشہ دکھا کے واپس بیرکوں میں گئے تو حالات پہلے کی نسبت اور خراب کر گئے۔ جنرل! دنیا کی کوئی فوج کسی ملک کی تقدیر نہیں سنوار سکتی۔ یہ میں اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔ مجھے پاکستان سے محبت ہے اور تمہیں میں اپنا چھوٹا بھائی سمجھتا ہوں۔ لہذا بڑا بھائی ہونے کے ناطے میرا مشورہ یہ ہے کہ جتنی جلد ہو سکے، اقتدار سیاست دانوں کو واپس کرو اور اپنی بیرکوں کو لوٹ جاؤ۔”
ترک وزیراعظم نے بھی پرویز مشرف کو آڑے ہاتھوں لیا اور ان تمام نقصانات کی فہرست گنوائی جو سیاسی عمل میں فوج کی مداخلت سے ترکی میں پیدا ہوئے تھے اور دنیا کے ہر اس ملک میں ہو سکتے تھے جہاں فوج زبردستی اپنی حکمرانی مسلط کرتی ہو۔

 یہ بھی پڑھیے۔۔۔ ضیاءالحق کمال کے اداکار تھے

ضیاءالحق کمال کے اداکار تھے

53b59b6936cfaکرامت اللہ غوری سفارت کاری سے وابستہ رہے ہیں۔ دوران ملازمت پاکستان کے جن حکمرانوں سے واسطہ رہا، ان کا احوال اپنی کتاب بار شناسائی میں لکھا ہے۔
لکھتے ہیں صدر ضیاءالحق نے چین کے دورے پر جانا تھا۔ دورے سے ایک روز قبل دفتر خارجہ کی جانب سے ضیاءالحق کو بریفنگ دی گئی۔ یہ بریفنگ دن گیارہ بجے سے دوپہر ایک بجے تک جاری رہی۔ ضیاءالحق نے پوری دلچسپی سے بریفنگ سنی، سوالات بھی کیے۔ بریفنگ کے بعد ضیاءالحق نے کرامت غوری سے دورہ کے ضمن میں مزید ایسے سوال بھی کیے جو وہ دوسروں کی موجودگی میں نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اس تقریر کا بھی پوچھا جو اگلے روز شام بیجنگ میں استقبالیہ ضیافت کے دوران کی جانی تھی۔ ضیاءالحق نے تاکید کی کہ تقریر کی کاپیاں صبح ائیرپورٹ پر ان کے حوالے کر دی جائیں۔
لیکن اس دوران ضیاءالحق اپنی اداکاری سے سبھی کو بے وقوف بنا رہے تھے۔ کیوں کہ یہ بات صرف ضیاءالحق کو ہی معلوم تھی کہ وہ اسی شام وزیراعظم محمد خان جونیجو کو برطرف کرنے اور ملک میں ہنگامی حالت نافذ کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔۔۔ اور ان حالات میں وہ چین کے دورے پر روانہ نہیں ہو پائیں گے۔
لہذا شام جونیجو حکومت برطرف کر دی گئی اور ضیاءالحق کا دورہ چین ملتوی ہو گیا۔
کرامت اللہ غوری لکھتے ہیں بریفنگ کے دوران اور اس کے بعد ضیاءالحق نے کسی بات یا حرکات و سکنات سے شبہ نہ ہونے دیا کہ وہ کیا فیصلہ کر چکے ہیں۔ بریفنگ کے دوران وہ اپنے انہماک سے یہی تاثر دیتے رہے کہ انہیں دورہ چین سے کس قدر دلچسپی ہے۔ لیکن وہ سب اداکاری تھی۔ اس دوران وہ منتخب وزیراعظم کو برطرف کرنے اور ملک میں ہنگامی حالت نافذ کرنے کی ٹھان چکے تھے۔