تنخواہوں میں کٹوتیاں اور برطرفیاں، اس صحافت کا کیا بنے گا؟

پاکستانی صحافت پر ایسا دور آیا کہ اپنے ساتھ تنخواہوں میں کٹوتی، بے روز گاری اور بے زاری بھی لایا۔
معاملہ یوں کہ صحافی کئی کئی سال تک ایک ہی تنخواہ پر کام کرتے ہیں۔ میڈیا مالکان تنخواہوں میں سالانہ اضافے پر یقین نہیں رکھتے۔ عہدہ بڑھانے کا تو تصور ہی نہیں۔ لیکن اب تو ایک نیا کام ہوا۔ میڈیا مالکان نے معاشی مسائل کا رونا روتے ہوئے صحافیوں کی تنخواہیں کم کر دیں۔ اندازہ لگائیں، کہ ایک شخص، جس نے اپنی عمر صحافت کو دی۔۔ اس کے گرد مہنگائی کا مینار بلند ہوتا گیا اور وہ سالوں تک ایک مخصوص تنخواہ پر گزارا کرتا رہا، وہ بھی کبھی وقت پر مل گئی، کبھی نہ ملی۔ بجائے اس کی تنخواہ بڑھنے کے، الٹا کم ہو گئی۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

پاکستانی میڈیا میں روبوٹ اینکر کے 12 فوائد

 

چین نے حال ہی میں ایک روبوٹک اینکر سے خبریں پڑھوائی ہیں۔ بنانے والوں نے اس میں آرٹی فیشیل انٹیلی جنس یعنی مصنوعی ذہانت کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ ویسے تو ذہانت اپنے ہاں کے اینکرز کی بھی مصنوعی ہی ہے اور اکثر تو خبریں بھی روبوٹ کی طرح پڑھتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ چینی روبوٹک اینکر پاکستانی مارکیٹ میں آ گیا تو اس کے کئی دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔
سب سے پہلے تو پاکستانی نیوز پروڈیوسرز کے سر کے درد ختم ہو جائیں گے۔ یہ سر درد دو وجہ سے ہوتا ہے۔ ایک تو اپنے اینکروں کی پڑھی خبریں سن کر ہوتا ہے، دوسرا جب یہ خبریں سننے کے بعد پروڈیوسر اپنا سر زور زور سے دیوار سے مارتا ہے اور نوبت مرہم پٹی تک جا پہنچتی ہے (پروڈیوسر کی) تو بھی درد ہوتا ہے۔ روبوٹک اینکر آنے کے بعد یہ سر دردی ختم ہو جائے گی۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

کرنٹ افیئر پروگرام کا ‘پرومو’ بنانے کا فارمولا

اگر آپ کرنٹ افیئر، یعنی حالات حاضرہ پر مبنی پروگرام شروع کرنے جا رہے ہیں تو اس کی تشہیر کے لیے بھی آپ کو ایک ویڈیو بنانا ہو گی۔ اس تشہیری ویڈیو کو میڈیا کی زبان میں پرومو کہا جاتا ہے (جو پروموشن سے نکلا ہے)۔
تو ایسا پرومو بنانے کا بہت سادہ سا فارمولا ہے۔
سب سے پہلے پروگرام کے اینکر کو شہر کی سڑکوں پر گواچی گاں کی طرح پھرتے ہوئے دکھائیں۔
اسے شہر کی کسی تاریخی یا اہم عمارت میں داخل اور خارج ہوتے دکھائیں۔ یا اینکر کو کسی بہت ہی اونچی عمارت پر لے جائیں جہاں کھڑا ہو کر وہ شہر کو غور سے دیکھے (اور دل میں سوچے کہ کہیں شاٹ بنوانے کے بعد پروڈیوسر دھکا تو نہیں دے گا)۔
اینکر کو کسی لائبریری لے جائیں، یہاں وہ کتابوں سے بھری الماری سے سب سے موٹی کتاب نکالے اور یوں پڑھنے لگے جیسے سی ایس ایس کی تیاری کر رہا ہے۔
کتاب پڑھنے کے ساتھ ساتھ اسے نوٹس لیتے ہوئے بھی دکھائیں۔
ایسا شاٹ بھی ضروری ہے جس میں اینکر اخبار پڑھے اور کسی اہم خبر کے گرد دائرہ لگائے۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

سیٹھوں کے ملازم صحافی

پیارے صحافی بھائیو اور بہنو! خاکسار کے خیال میں آج کل صحافت ایک کاروبار ہے اور ہر بیوپار کی طرح اس کا بنیادی مقصد بھی پیسہ کمانا ہے۔ اس میڈیائی بازار میں خبر ایک پراڈکٹ ہے اور صحافی اسے لانے، بنانے اور پیش کرنے والا مزدور۔ آپ کی خبر بکے گی تو کاروبار چلے گا۔
جس سیٹھ کے ہاں آپ مزدوری کرتے ہیں، وہ صحافت کے علاوہ بھی کئی کاروبار کرتا ہے۔ اور میڈیائی کاروبار کرنے کا ایک مقصد اپنے ‘دیگر’ تجارتی مفادات کا تحفظ بھی ہوتا ہے۔ لہذا آپ کی صحافت بھی اسی سوداگری دائرہ کار میں رہے گی۔ آپ ہر وہ خبر چلانے میں آزاد ہوں گے جس سے سودا بھی بک جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
اسی دائرے میں گھومتے ہوئے آپ نے مزدوری کرنی ہے۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

میڈیا مالکان کے نام کھلا خط

آپ ایک ٹی وی چینل کھولنے والے ہیں یا کھولے بیٹھے ہیں۔ آپ نے اس کی کامیابی کے لیے چند افراد کو بھرتی کر رکھا ہے۔ اور آپ توقع رکھتے ہیں کہ یہ افراد آپ کے چینل کو مقبولیت میں پہلے نمبر پر لے کر آئیں۔ یہ ترتیب بظاہر درست ہے۔ لیکن اس سے بھی پہلے کچھ ایسی چیزیں ہیں جن کا فیصلہ آپ کے ملازمین نے نہیں، بلکہ آپ نے خود کرنا ہے۔
آپ کا چینل کتنا بکتا ہے (ب کے نیچے زیر کے ساتھ پڑھیں)، اس کا دارومدار متعدد عوامل پر ہے۔ یعنی اگر آپ صحافی سے کہیں بھیا ناظرین بھی کھینچ لاؤ، تو وہ صحافی کی بنیادی ذمہ داری نہیں۔ اس کی بنیادی ذمہ داری ایسی خبریں دینا ہے جو درست ہوں اور بہتر انداز میں ناظر تک پہنچا دی جائیں۔ اسی طرح ڈرامے کے ہدایت کار کی ذمہ داری ایک بہترین ڈرامہ بنانا ہے، اس ڈرامے کے لیے اشتہار کیسے لائیں جائیں، اسے کس دن اور کس وقت نشر کیا جائے، یہ فیصلہ ایک اور شعبے کی ہو گی۔
لہذا آپ ٹی وی چینل کھول چکے ہیں یا کھولنے والے ہیں تو چند بنیادی باتوں کا تعین آپ نے خود ہی کرنا ہو گا۔ یا ان باتوں کے تعین کے لیے علیحدہ سے کسی ملازم کو ذمہ داری دینا ہو گی۔ آپ کو خود سے چند بنیادی سوال پوچھنا ہوں گے۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

عامر لیاقت سے پانچ سوال

عامر لیاقت صاحب۔ سنتا ہوں کہ رمضان نشریات کے بعد، اب آپ جیو پر مارننگ شو بھی "برپا” کرنے جا رہے ہیں۔یہ خبر سنی تو مجھے ایکسپریس والوں پر ترس بھی آیا، اور پیار بھی۔ جب آپ کچھ دنوں کے لیے وہاں سدھارے تھے، تو انہوں نے کتنی خوشیاں منائی تھیں۔آپ کو اپنا صدر ہی مقرر کر لیا تھا۔
آپ کی آمد کے روز بڑے سائز کا خیر مقدمی اشتہار شائع کیا گیا (اور جب تک آپ رہے، آپ کی محمودہ سلطانہ فاؤنڈیشن کے اشتہار بھی شائع ہوتے رہے)۔ایکسپریس نیوز نے رات نو بجے کے خبر نامے میں آپ کی آمد کو بریکنگ نیوزکے طور پر پیش کیا، اور آپ کا براہ راست انٹرویو لیا گیا(یہ انٹرویو آپ تحریرکے آخرمیں دیکھ سکتےہیں)۔
اس انٹرویو میں آپ نے عقل کے جو موتی بکھیرے، میں ابھی تک انہیں سمجھنے سے قاصر ہوں۔ جیو پر مارننگ شو شروع کرنے سے پہلے مندرجہ ذیل دانائی بھری باتوں کی وضاحت ضرور فرما  دیجیے گا۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

کیا بابو صحافی نوکری چھوڑ دے؟

بابو بچپن سے ہی صحافی بننا چاہتا تھا۔ تعلیم بھی اسی شعبے میں پائی، اور منتوں مرادوں کے بعد ایک ٹی وی چینل میں نوکری بھی مل گئی۔ بابو کو لگا اسے زندگی مل گئی ہے؛ وقت پر لگا کر اڑنے لگا اور پلک جھپکتے میں سات سال گزر گئے۔
اب بابوکے ساتھ ایک مسئلہ ہے۔
بابو نے جس تنخواہ پر نوکری شروع کی تھی، سات سال بعد اس  میں  چند ہزار روپے کا ہی اضافہ  ہوا ہے۔ اس کے مقابلے میں اخراجات کئی گنا بڑھ گئے ہیں، اور بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔
بابو کو یہ بھی علم نہیں کہ اسے مزید کتنے سال اسی تنخواہ پر کام کرنا ہوگا۔ کو پڑھنا جاری رکھیں