نام نہ تھا، پھر نواز شریف کو کیسے پھنسایا؟ – پانامہ کہانی قسط 3

چلیے سازشی نظریات گھڑتے ہیں

بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں ‘ایک قوت’ فیصلہ کر چکی تھی کہ نواز شریف کو گھر بھیجنا ہے۔ سپریم کورٹ نے تو بس اس فیصلے پر اپنے دست خط کیے ہیں۔
پانامہ کیس اربوں روپے کی کرپشن اور منی لانڈرنگ کا تھا، لیکن نواز شریف کو سزا چند لاکھ کے اثاثے چھپانے پر سنائی گئی ہے۔ یہ چند لاکھ بھی وہ ہیں جو وصول ہی نہیں کیے گئے۔
اثاثے کی تعریف بھی توجہ طلب ہے۔ اگر میں نے کسی کے لیے کچھ خدمات سرانجام دیں۔ اب اس فرد نے مجھے رقم کی ادائیگی کرنی ہے لیکن تاحال کی نہیں۔ تو کیا وہ رقم، جو ابھی ملی ہی نہیں، میرا اثاثہ ہے؟
کسی چیز کو چھپایا اس صورت جاتا ہے جب سامنے آنے سے نقصان ہو۔ نواز شریف دبئی کمپنی میں چیئرمینی تسلیم کر چکے تھے، تنخواہ وصولی بھی تسلیم کر لیتے تو کچھ پکڑ نہ ہوتی۔ لہذا غیر وصول شدہ آمدن ظاہر نہ کرنے میں غلطی تو ہو سکتی ہے، بدنیتی نہیں۔
اسی بات کو بطور ثبوت پیش کیا جا رہا ہے کہ چونکہ ‘ایک قوت’ ہر صورت نواز شریف کو گھر بھیجنے کا فیصلہ کر چکی تھی لہذا سپریم کورٹ نے کمزور قانونی جواز تراشتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا۔
بات قرین قیاس تو لگتی ہے، لیکن یہ بھی سوچیے کو پڑھنا جاری رکھیں

پانامہ فیصلہ، جو میں نے سمجھا

سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھنے کے بعد جو بات مجھے سمجھ آئی وہ یہ ہے
نواز شریف دبئی میں ایک کمپنی کے چیئرمین تھے۔ چیئرمین کے طور پر ان کی (کاغذوں کی حد تک) کچھ تنخواہ مقرر تھی جو انہوں نے کبھی وصول نہیں کی۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے، چاہے نواز شریف نے تنخواہ وصول نہ کی ہو لیکن اس کے باوجود الیکشن کمیشن کو جمع کرائے گئے گوشواروں میں غیر وصول شدہ تنخواہ کا ذکر کرنا چاہیے تھا۔ چونکہ نواز شریف نے ایسا نہیں کیا، لہذا وہ صادق اور امین بھی نہیں رہے، اور نااہل کیے جاتے ہیں۔
نواز شریف کو آئین پاکستان کی شق 62 (1) ف کے تحت نااہل کیا گیا ہے۔ اس شق کے مطابق کوئی بھی شخص صرف اسی صورت پارلیمنٹ کا ممبر بن سکتا ہے (یا رہ سکتا ہے) اگر وہ
عقل مند ہو، نیک ہو، فضول خرچ نہ ہو، صادق ہو اور امین ہو۔
فیصلہ پڑھنے کے بعد ایک بات سمجھنے سے قاصر ہوں۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

پارلیمنٹ سے خیالی خطاب

جناب اسپیکر! میرا یقین کریں، میں نے کبھی کچھ غلط نہیں کیا، نہ ہی کبھی کچھ ٹھیک کیا ہے۔
یہ اپوزیشن والے سارے مل کر رولا ڈالتے ہیں۔ کہتے ہیں سات سوال پوچھیں گے۔ اب وزیراعظم بن کر بھی میں نے سوالوں کے جواب ہی دینے ہیں۔۔۔ یہ اسمبلی ہے یا اسکول؟
تھوڑا میرے سننے میں بھی مسئلہ ہے۔ اپوزیشن اور عوام جو کہتی رہے وہ نہیں سنائی دیتا، جو دل کہتا ہے وہ صاف سنائی دیتا ہے۔ اسی کا علاج کرانے تو میں لندن گیا تھا۔ وہاں ڈاکٹروں نے بتایا، میاں صاحب، مسئلہ آپ کے کانوں میں نہیں، آپ کی نیت میں ہے۔ آپ بس ریلیکس کیا کریں۔ یہاں بھی مجھے سننے میں غلطی ہوئی، انہوں نے ریلیکس کہا، میں رولیکس لینے گھڑیوں کی دکان پر پہنچ گیا۔
لوگ ہلکی پھلکی بھوک مٹانے کے لیے ٹک کھاتے ہیں، میں تو دیگ کی دیگ ٹکا جاتا ہوں۔ ایک دن دیگ کا ڈھکن اٹھایا ہی تھا کہ نکے منڈے کا فون آ گیا۔ آپ سے کیا چھپانا، یہ معصوم بھی ہمیشہ غلط وقت پر ہی فون کرتا ہے۔ کہنے لگا ابا جی اسی پھڑے گئے آں۔۔۔ پانامہ لیک ہو گیا ہے۔ بتایا نا، میرے سننے میں مسئلہ ہے، میں نے سمجھا بے چارے کا بھکانا لیک ہو گیا ہے۔ جب اس نے ساری بات سمجھائی تو میں نے کہا "یار اس سے تو ہماری بڑی بزتی ہو گی۔” کم بخت کہنے لگا، ابا جی پہلے کون سی ہماری بڑی عزت ہے۔ کو پڑھنا جاری رکھیں