دو قسم کے انصاف

انصاف کی ستم ظریفی دیکھیے۔ عمران خان نے اپنے سیاسی کزن طاہر القادری کے ساتھ اسلام آباد پر چڑھائی کی تو ایک پولیس افسر عصمت اللہ پر حملہ کیا گیا، جس سے وہ زخمی ہوگئے۔ عمران خان اس حملے کے ملزم ٹھہرے۔ ان پر عدالت میں کیس چلانے کی کوشش کی گئی اور وہ قریب ساڑھے تین سال تک عدالت میں پیش ہی نہ ہوئے۔
آخر کار جب پیش ہوئے تو انہیں مقدمے سے بری کر دیا گیا۔ بری کرنے کی وجہ بھی دلچسپ ہے۔ عدالت نے کہا، ملزم کی جائے وقوعہ پر موجودگی ثابت نہیں ہوئی۔ اور یہ ثابت بھی نہیں ہوتا کہ عمران خان نے لوگوں کو پولیس افسر پر حملے کے لیے اکسایا ہو۔ حالانکہ تقاریر میں وہ انتظامیہ کے افسران کو کھلے عام دھمکیاں دے چکے تھے۔ اور جائے وقوعہ پر موجودگی ثابت نہ ہونا بھی سمجھ نہیں آتا۔
643963-chiefjustice-1386709229-458-640x480خیر، ایک افسوس ناک واقعہ 2007 کو بھی پیش آیا تھا۔ اْس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لیے گھر سے نکلے تو پولیس اہلکاروں نے ان سے بدسلوکی کی۔ اس دوران افتخار چودھری کو بالوں سے کھینچا گیا۔ واقعے کو گیارہ سال گزرنے کے بعد سزائیں دی گئیں۔ سابق آئی جی اسلام آباد افتخار احمد کو پندرہ روز کے لیے جیل بھیجا گیا۔ حاضر سروس ڈی ایس پی رخسار مہدی، ایس ایس پی موٹروے جمیل ہاشمی، نیشنل سکیورٹی ڈویژن میں ایڈیشنل سیکرٹری اور سابق ایس ایس پی اسلام آباد کیپٹن ریٹائرڈ ظفر، چار پولیس اہلکاروں کو ایک ایک ماہ کےلیے قید کر لیاگیا۔ سابق چیف کمشنر اسلام آباد خالد پرویز، سابق ڈپٹی کمشنر اسلام آباد چودھری ایم علی کو عدالت برخاست ہونے تک علامتی سزا سنائی گئی۔
فیصلہ آتے ہی بدسلوکی کے مجرموں کو فوری طور پر حراست میں لے لیا گیا۔

یہ سی پیک کے خلاف سازش ہے

سائبر جرائم قانون کی قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد ان معاملات میں بولنا کچھ عقل مندانہ روش نہیں، لیکن رزم حق و باطل ہو تو ہمارا قلم حق بات کہے بغیر نہیں رہ سکتا۔
سوشل میڈیا پر پاک فوج کے خلاف چلائی جانے والی مہم دراصل سی پیک منصوبے کے خلاف سازش ہے۔ ایک عام سی ذہانت رکھنے والا شخص بھی اندازہ لگا سکتا ہے اس سازش کے تانے بانے کس ملک سے جا کر ملتے ہیں۔
پاک فوج ایک طرف تو دہشت گردوں کے خلاف کامیابیاں سمیٹ رہی ہے، دوسری جانب سی پیک منصوبہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہے۔
اس دوران چند تصاویر اس الزام کے ساتھ پھیلائی جا رہی ہیں کہ موٹروے پولیس نے حد رفتار کی پابندی نہ کرنے پر پاک فوج کے دو افسران کو روکا۔ صرف پانچ سو روپے کے چالان سے بچنے کے لیے ان افسران نے موٹروے پولیس اہلکاروں کے ساتھ بدتمیزی کی، فوج کی مزید مسلح نفری طلب کی جو مارتے پیٹتے ہوئے پولیس اہلکاروں کو اپنے ساتھ قلعہ اٹک لے گئے۔

جھوٹ اس تمام الزام سے یوں ٹپک رہا ہے جیسے برستی بارش میں مفلس کی چھت ٹپکتی ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ پاک فوج آئین اور قانون کا احترام کرنے والا ادارہ ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس ادارے میں کام کرنے والے آئین اور قانون کا احترام نہ کریں۔ کو پڑھنا جاری رکھیں