پارلیمنٹ سے خیالی خطاب

جناب اسپیکر! میرا یقین کریں، میں نے کبھی کچھ غلط نہیں کیا، نہ ہی کبھی کچھ ٹھیک کیا ہے۔
یہ اپوزیشن والے سارے مل کر رولا ڈالتے ہیں۔ کہتے ہیں سات سوال پوچھیں گے۔ اب وزیراعظم بن کر بھی میں نے سوالوں کے جواب ہی دینے ہیں۔۔۔ یہ اسمبلی ہے یا اسکول؟
تھوڑا میرے سننے میں بھی مسئلہ ہے۔ اپوزیشن اور عوام جو کہتی رہے وہ نہیں سنائی دیتا، جو دل کہتا ہے وہ صاف سنائی دیتا ہے۔ اسی کا علاج کرانے تو میں لندن گیا تھا۔ وہاں ڈاکٹروں نے بتایا، میاں صاحب، مسئلہ آپ کے کانوں میں نہیں، آپ کی نیت میں ہے۔ آپ بس ریلیکس کیا کریں۔ یہاں بھی مجھے سننے میں غلطی ہوئی، انہوں نے ریلیکس کہا، میں رولیکس لینے گھڑیوں کی دکان پر پہنچ گیا۔
لوگ ہلکی پھلکی بھوک مٹانے کے لیے ٹک کھاتے ہیں، میں تو دیگ کی دیگ ٹکا جاتا ہوں۔ ایک دن دیگ کا ڈھکن اٹھایا ہی تھا کہ نکے منڈے کا فون آ گیا۔ آپ سے کیا چھپانا، یہ معصوم بھی ہمیشہ غلط وقت پر ہی فون کرتا ہے۔ کہنے لگا ابا جی اسی پھڑے گئے آں۔۔۔ پانامہ لیک ہو گیا ہے۔ بتایا نا، میرے سننے میں مسئلہ ہے، میں نے سمجھا بے چارے کا بھکانا لیک ہو گیا ہے۔ جب اس نے ساری بات سمجھائی تو میں نے کہا "یار اس سے تو ہماری بڑی بزتی ہو گی۔” کم بخت کہنے لگا، ابا جی پہلے کون سی ہماری بڑی عزت ہے۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

ہر پاکستانی کی ڈائری

حسب معمول دفتر کے لیے لیٹ ہو ں، موٹرسائیکل کی چابی اٹھاتا ہوں تو نظر ساتھ رکھے ہیلمٹ پر بھی پڑتی ہے۔
میں سر جھٹکتا ہوں، قانون اور ہیلمٹ دونوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے باہر نکل جاتا ہوں۔
آگے  ٹریفک کا سرخ اشارہ میرا منہ چڑارہا ہے۔ ہارن بجا بجا کر اپنے آگے کھڑے لوگوں کو دائیں بائیں سرکنے پر مجبور کرتا ہوں، اتنی دیر میں اشارہ سبز ہو جاتا ہے۔لگتا ہے میرے علاوہ ہر شخص اسی چوک پر قیام کا ارادہ لے کر گھر سے نکلا ہے، میں ہارن پر ہاتھ رکھتا ہوں اور آسمان سر پر اٹھا لیتا ہوں۔
اگلا اشارہ بھی سرخ ہے، لیکن میرے سے آگے کوئی گاڑی نہیں، لہذا آسانی سے اسے کاٹ دیتا ہوں۔ میری وجہ سے ایک گاڑی کو اچانک بریک لگانا پڑتے ہیں، ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی خاتون کا سر ڈیش بورڈ سے ٹکراتا ہے، گاڑی والا کھڑکی سے سر نکال کر کچھ کہتا ہے۔ میں کچھ نہیں سنتا،آگے بڑھ جاتا ہوں۔ کو پڑھنا جاری رکھیں