پرانا کچھوا نیا خرگوش

چڑیا گھر کی سیر کو گئے تو کچھوے سے ملاقات ہوئی۔ وہ اسی رفتار سے چل رہا تھا جس رفتار سے کئی سال سے ہماری تنخواہ چل رہی ہے۔۔۔ یعنی ایک ہی جگہ کھڑا تھا۔
ہم نے پوچھا، بھئی کہانی میں تو آپ مستقل مزاجی سے چلتے رہتے ہیں اور ریس جیت جاتے ہیں، یہاں خرگوش کی طرح لمبی تان کر کیوں سو رہے ہیں؟
کچھوا مایوسی سے بولا، بھائی عمیر! میں چلتا رہوں یا رک جاؤں۔۔۔ منزل مجھے ملنی ہے نہ ہی خرگوش کو۔
قریب کے پنجرے میں خرگوش بھی ہماری باتیں سن رہا تھا۔ کہنے لگا، منزل چاہے نہ ملے لیکن چھلانگیں وغیرہ لگانے سے بندے کی ٹور شور بن جاتی ہے۔
ساتھ والے پنجرے سے بندر بولا، چھلانگیں تو میں بھی بڑی بڑی لگاتا ہوں، میری ٹور کیوں نہیں بنتی؟
خرگوش نے کہا، جو ایک ہی جگہ کھڑا ہو کر چھلانگیں لگاتا رہے، اس کی ٹور نہیں بنتی۔۔۔ جو چھلانگ لگا کر آگے بڑھ جائے اس کی بن جاتی ہے۔

وہ لڑکی پاگل سی، آخری حصہ

پہلا حصہ
دوسرا حصہ
تیسرا حصہ
اب لاپتہ لڑکی کے گھر والوں کا فون آ گیا۔ کہنے لگے ہماری ن سے بات کرائیں۔ ہم نے کہا یہ تو اپنا نام س بتاتی ہیں۔ وہ کہیں آپ بات تو کرائیں۔ س نے بات کی اور انہیں پہچاننے سے انکار کر دیا۔ وہ کہنے لگے، بچی ہماری ہی ہے، ناراضی میں پہچاننے سے انکار کر رہی ہے، ہم تو آپ کے گھر آنے کے لیے نکل پڑے ہیں۔
یہ صورتحال تو سلجھنے کے بجائے مزید الجھ گئی۔
اگر وہ اس کے گھر والے نہ ہوئے لیکن پھر بھی لے جانے پر اصرار کیا تو ہم کیسے تصدیق کریں گے؟ اگر انہوں نے لے جانے کے لیے زبردستی کی تو ہم کیسے نمٹیں گے۔ اگر وہ لوگ اسی لڑکی کے گھر والے ہوئے اور غصے میں آ کر اسے کوئی نقصان پہنچا دیا؟ یا لڑکی نے خوف یا پریشانی میں خود اپنے آپ کو نقصان پہنچا لیا تو پھر کیا ہو گا؟
ایک ایک لمحہ پہاڑ بن کر گزرنے لگا۔ ہر سیکنڈ کوئی نیا خدشہ سر اٹھاتا اور ہم کانپ کانپ جاتے۔
خیر وہ صاحبان ٹیلی فون پر پتہ پوچھ ہمارے گھر آن پہنچے۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

وہ لڑکی پاگل سی، حصہ سوئم

پہلا حصہ

دوسرا حصہ

گاڑی میں بیٹھ کر گھر کو روانہ ہوئے تو میں نے پوچھا، آپ کیا کرتی ہو؟ کہنے لگی پڑھتی ہوں۔ کس جماعت میں؟ بارہویں میں۔ کس جگہ؟ یہاں لاہور میں ہی۔ کس کالج میں؟ اقبال یونیورسٹی میں۔
ہیں! اول تو ملک میں اس نام کی کوئی یونیورسٹی نہیں۔ کیا وہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کہنا چاہتی ہے؟
کہاں پر ہے یہ اقبال یونیورسٹی؟ مجھے معلوم نہیں میں تو صرف پرچے دینے آتی ہوں۔ لیکن جس جگہ سے اس کا تعلق ہے، وہاں کے لوگ تو پرچے دینے راولپنڈی جاتے ہیں؟ آپ کے مضامین کیا ہیں؟ ڈاکٹری۔
ہر بیان میں کھوٹ۔ آخر یہ معاملہ ہے کیا؟
میں نے سخت لہجے میں پوچھ ہی لیا، کیا آپ گھر سے بھاگ کر آئی ہو؟
اس نے آہستہ سے جواب دیا نہیں۔
گھر میں کسی اور کا نمبر یاد ہے؟ جواب اس بار بھی نفی میں تھا۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

وہ لڑکی پاگل سی، حصہ دوئم

پہلا حصہ

کہنے لگی، آپ آ رہے ہیں نا؟ اچھا۔ آپ نہیں آتے تو میں خود آ جاتی ہوں۔۔۔
اس نے بتایا تھا کہ والد قصور میں کوئی کاروبار کرتے ہیں۔ لیکن کہاں کرتے ہیں یہ نہیں معلوم۔ اور جب اس نے کہا میں خود آ جاتی ہوں تو مجھے مزید کھٹکا ہوا۔
فون بند کر کے کہنے لگی، ابو کو شور کی وجہ سے آپ کی بات سمجھ نہیں آئی تھی، اس لیے ایسا کہہ دیا۔ وہ بس آنے ہی والے ہیں آپ بے شک چلے جائیں۔
میں اس کی طرف سے شک میں مبتلا ہو چکا تھا، اس لیے امی جان سے کہا آئیں گھر چلتے ہیں۔ لیکن وہ تنہا لڑکی کو یوں چھوڑ جانے پر آمادہ نہ تھیں۔ دوبارہ اسی نمبر پر فون ملایا، اب امی جان نے بات کی تو فون پر موجود شخص نے پھر یہی کہا کہ وہ تو اس لڑکی کو جانتا تک نہیں۔
معاملہ میں واضح طور پر کوئی گڑ بڑ تھی،

کو پڑھنا جاری رکھیں

وہ لڑکی پاگل سی

لاہور کے لاری اڈے پر امی جان بس سے اتریں تو ان کے ساتھ برقعے میں لپٹی ایک لڑکی بھی تھی۔
بیٹا اس بچی کا موبائل فون کھو گیا ہے۔ اس کے والد اسے لینے آتے ہی ہوں گے، ہم تب تک اس کے ساتھ انتظار کر لیتے ہیں۔
امی جان نے بتایا اور ہم وہیں انتظار کرنے لگے۔
شام رات سے گلے مل رہی تھی۔  کچھ دیر گزری تو والدہ نے اپنا فون اسے دیا اور والد کو کال کرنے کا کہا۔ اس نے نمبر ملا کر فون کان سے لگایا، اور کہنے لگی، ابو فون نہیں اٹھا رہے۔
لڑکی نے بتایا کہ اس کے والد صاحب قصور ہوتے ہیں، وہیں سے لینے آ رہے ہیں، شاید رش کی وجہ سے دیر ہو رہی ہے۔
کچھ دیر بعد والدہ نے مجھے کہا تم اپنے فون سے کال کرو۔ امی جان کے فون سے ڈائل کیے گئے نمبروں کی فہرست دیکھی تو حیرت ہوئی۔

کو پڑھنا جاری رکھیں