جتنے مرضی آپریشن کرلیں

وہ عورت تو کراچی میں رو رہی ہے، پھر میرا منظر کیوں دھندلا گیا ہے۔ حکومت نے تمام اداروں کو آئین کے دائرے میں رہنے کی تلقین کر دی ہے۔ ٹی وی اسکرین پر یہ خبر چنگھاڑ رہی ہے، لیکن میرے گردوپیش میں ایک نمی سی در آئی ہے۔ میں خبر کے کرارے پن سے لطف نہیں اٹھا پا رہا۔
عدالت کا فیصلہ آیا، ریلوے کی زمین پر بنے فلیٹ غیر قانونی ہیں، چوبیس گھنٹے میں خالی کرا لیے جائیں۔ معاملہ سر تا پا خبریت تھا، فوراً رپورٹر اور کیمرے دوڑائے۔ عدالتی حکم کے بعد کیا کارروائی کی جاتی ہے، یہ دیکھنے اور رپورٹ کرنے کے لیے سب نے کمر کس لی۔
وہاں موجود بہت سے لوگوں کی باتیں نشر کیں، کہیں افسوس تھا، کہیں شکایت تھی، غصہ تھا، جھنجھلاہٹ بھی تھی۔۔۔ لیکن اس بوڑھی عورت کے گریے میں کچھ اور بھی تھا۔ عمر بھر کی کمائی لٹ جانے کا صدمہ، سر کی چھت چھن جانے کا ملال، ناامیدی، خوف، فریاد۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

لعنت بھیج کر شیئر کریں

ایک جدید ماڈل کی قیمتی کار سڑکوں پر رواں ہے۔ سیاہ چشمے پہن کر کار چلانے والے شخص سے دولت مندی ٹپک رہی ہے۔ کار میں اسکول یونیفارم پہنے چار بچے بیٹھے ہیں، اور اونگھتی نظروں سے گردوپیش کو دیکھ رہے ہیں۔
چوک پر ٹریفک کا اشارہ سرخ ہے، لیکن کار والا بے پروائی سے اسے کاٹتے ہوئے آگے بڑھ جاتا ہے۔ اگلے سگنل پر بھی یہی کہانی دہرائی جاتی ہے کہ ٹریفک کانسٹیبل اسے روک لیتا ہے۔ اب کار والے کو غصہ آ جاتا ہے، وہ چوٹ کھائے کتے کی طرح بھونکتے ہوئے گاڑی سے نکلتا ہے
"تم نے مجھے روکنے کی جرائت کیسے کی؟”
کانسٹیبل حیران ہوتا ہے، "جناب آپ نے دو جگہ ٹریفک اشارہ توڑا ہے۔”
کار والا مغلظات بکتا ہے، کانسٹیبل کی پیٹی اتروانے کی دھمکی دیتا ہے۔ پچیس ہزار روپے کمانے والا قانون کا رکھوالا،  قانون شکن سے مرعوب ہو جاتا ہے، اور گاڑی آگے بڑھ جاتی ہے۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

آپ کس قسم کے ڈرائیور ہیں

لہراتے، بل کھاتے، بلبلاتے، اٹھلاتے، آنکھیں دکھاتے اور دل کو جلاتے۔۔۔جب سڑکوں پر جائیں، ان افراد سے پالا پڑتا ہے۔ ان حضرات کو عرف عام میں ڈرائیور کہا جاتا ہے، لیکن نوعیت اور خصوصیت کے اعتبار سے ہم نے انہیں مندرجہ ذیل اقسام میں تقسیم کیا ہے۔
بے کل  ڈرائیور: بے کل ڈرائیور کو بے عقل ڈرائیوربھی کہاجاسکتا ہے۔ان  کی ہمشیرہ کسی کے ساتھ دوڑ گئی ہوتی ہے، اور وہ ان کا پیچھا کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی لیے اشارہ کھلنے سے پہلے ہی ریس پر پیر اور ہارن پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں۔ انہیں ڈر ہوتا ہے کہ سگنل کی بتی پیلی ہونے سے پہلے پہلے کہیں ان کی ہمشیرہ اپنے ہاتھ نہ پیلے کر لے۔
مجبور ڈرائیور: یہ حضرات یا تو عادت سے مجبور ہوتے ہیں، یا پھر خارش سے۔ کبھی سیدھی گاڑی نہیں چلاتے۔ شاید تعلق خاص بازار کی بالائی منزل سے ہوتا ہے، اسی لیے گاڑی چلانے کو بھی رقص کرنے جیسا سمجھتے ہیں۔
سالے ڈرائیور: یہ کسی ٹریفک وارڈن یا اعلیٰ افسر کے سالے ہوتے ہیں۔ جہاں کہیں قوانین کی خلاف ورزی پر پکڑا جائے، یہ اپنے بہنوئی کو فون ملا دیتے ہیں۔ ٹریفک کے پچاس فیصد مسائل کے ذمہ دار یہ ہوتےہیں، باقی پچاس فیصد کی ذمہ داری ان کےبہنوئیوں پر عائد ہوتی ہے۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

رکشے والے کا بھائی

رکشہ ہوا سے باتیں کر رہا تھا، اور میں اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش میں تھا۔
رکشے والا ایک مغرور شہ سوار کی مانند،راستے میں آنے والی ہر شے پر ایک حقارت بھری نظر ڈالتا، اور آگے بڑھ جاتا۔ گاڑیاں، موٹرسائیکل اور ٹریفک کے سگنل، رکشے والا سب کو کاٹتا ہوا آگے ہی آگے بڑھتا جارہا تھا۔
جب اس نے یکے بعد دیگرے تین سگنل توڑے تو میں تھوڑا حیران ہوا۔
"بھائی صاحب، آپ سگنل توڑتے جارہے ہیں، چالان کی کوئی فکرنہیں ہے آپ کو؟” میں پوچھ ہی بیٹھا۔
"صاحب میرا بھائی ٹریفک وارڈن ہے، کہیں چالان وغیرہ ہونے لگے تو وہ سفارش کردیتا ہے، اس لیے مجھے کوئی فکر نہیں۔” کو پڑھنا جاری رکھیں