پرانی موٹرسائیکل اور گندی گالیاں

زمانہ گزرا، ہم نے ایک عدد سیکنڈ ہینڈ موٹرسائیکل خریدی۔ ظاہری صورت تو بھلی ہی تھی، اور تکنیکی باریکیوں کا ہمیں علم نہ تھا۔ بیچنے والا بھی مستری تھا، سو ہمیں اطمینان تھا کہ اس نے ٹھیک حالت میں رکھی ہو گی۔ لہذا زیادہ چھان پٹک نہ کی اور سودا کر لیا۔ اب اگلے روز اسے کک مارتے ہیں تو وہ اسٹارٹ نہیں ہوتی۔ دوبارہ اسی عطار کے لونڈے کے پاس جا پہنچے جس سے یہ بیماری خریدی تھی۔
اسے بتایا کہ موٹرسائیکل تو اسٹارٹ ہو کے نہیں دے رہی۔
کہنے لگا، پا جی، اینوں اسٹارٹ کرن واسطے گالاں کڈنیاں پین گیاں (بھائی صاحب، اسے اسٹارٹ کرنے کےلیے گالیاں نکالنی پڑیں گی)
ہم سٹپٹائے، "بھیا گالیاں نکالنی تو ہمیں آتی ہی نہیں۔”
بولا، پا جی جدوں ککاں مارو گے اور اے اسٹارٹ نہیں ہووے گی تے گالاں کڈنیاں آپے ای آ جان گیاں (بھائی صاحب، جب آپ ککس ماریں گے اور موٹرسائیکل اسٹارٹ نہیں ہو گی تو آپ کو خود بخود گالیاں نکالنا آ جائےگا۔
مشورہ نا معقول تھا، پھر بھی ہم نے موٹرسائیکل کو کک ماری تو منہ سے نکلا، ہٹ نالائق! اسٹارٹ ہو جا۔
پا جی اے کی پے کردے او؟ مکینک نے حیرانی سے پوچھا۔ (بھائی صاحب، یہ کیا کر رہے ہیں)
تمہارے ہی کہنے پر موٹرسائیکل کو گالیاں نکال رہے ہیں۔
ناہنجار کہنے لگا، پا جی ایناں گالاں نال کم نہیں چلنا، اینوں گندیاں گالاں کڈو (ایسی گالیوں سے کام نہیں چلنا، گندی گالیاں نکالیں)
اب یہ نہیں کہ ہمیں گندی گالیاں آتی نہ تھیں، بس اس کے سامنے خفیف ہوئے جا رہے تھے۔
کک ماری اور دل کڑا کر کے بول دیا، نطفہ نا تحقیق! اسٹارٹ کیوں نہیں ہوتی۔
مکینک ہنس ہنس کو دوہرا ہو گیا۔ بولا، گالاں انگریزی اچ نہیں، پنجابی اچ کڈنیاں نیں (گالیاں انگریزی میں نہیں، پنجابی میں نکالنی ہیں)
اب ہماری ہمت جواب دیتی جا رہی تھی۔ غصے سے موٹرسائیکل کو کک ماری تو بے ساختگی میں دانت پیس کر کہا، تیری پین دی سری۔
اور موٹرسائیکل اسٹارٹ ہو گئی
#ماخوذ

وہ لڑکی پاگل سی، حصہ سوئم

پہلا حصہ

دوسرا حصہ

گاڑی میں بیٹھ کر گھر کو روانہ ہوئے تو میں نے پوچھا، آپ کیا کرتی ہو؟ کہنے لگی پڑھتی ہوں۔ کس جماعت میں؟ بارہویں میں۔ کس جگہ؟ یہاں لاہور میں ہی۔ کس کالج میں؟ اقبال یونیورسٹی میں۔
ہیں! اول تو ملک میں اس نام کی کوئی یونیورسٹی نہیں۔ کیا وہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کہنا چاہتی ہے؟
کہاں پر ہے یہ اقبال یونیورسٹی؟ مجھے معلوم نہیں میں تو صرف پرچے دینے آتی ہوں۔ لیکن جس جگہ سے اس کا تعلق ہے، وہاں کے لوگ تو پرچے دینے راولپنڈی جاتے ہیں؟ آپ کے مضامین کیا ہیں؟ ڈاکٹری۔
ہر بیان میں کھوٹ۔ آخر یہ معاملہ ہے کیا؟
میں نے سخت لہجے میں پوچھ ہی لیا، کیا آپ گھر سے بھاگ کر آئی ہو؟
اس نے آہستہ سے جواب دیا نہیں۔
گھر میں کسی اور کا نمبر یاد ہے؟ جواب اس بار بھی نفی میں تھا۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

وہ لڑکی پاگل سی، حصہ دوئم

پہلا حصہ

کہنے لگی، آپ آ رہے ہیں نا؟ اچھا۔ آپ نہیں آتے تو میں خود آ جاتی ہوں۔۔۔
اس نے بتایا تھا کہ والد قصور میں کوئی کاروبار کرتے ہیں۔ لیکن کہاں کرتے ہیں یہ نہیں معلوم۔ اور جب اس نے کہا میں خود آ جاتی ہوں تو مجھے مزید کھٹکا ہوا۔
فون بند کر کے کہنے لگی، ابو کو شور کی وجہ سے آپ کی بات سمجھ نہیں آئی تھی، اس لیے ایسا کہہ دیا۔ وہ بس آنے ہی والے ہیں آپ بے شک چلے جائیں۔
میں اس کی طرف سے شک میں مبتلا ہو چکا تھا، اس لیے امی جان سے کہا آئیں گھر چلتے ہیں۔ لیکن وہ تنہا لڑکی کو یوں چھوڑ جانے پر آمادہ نہ تھیں۔ دوبارہ اسی نمبر پر فون ملایا، اب امی جان نے بات کی تو فون پر موجود شخص نے پھر یہی کہا کہ وہ تو اس لڑکی کو جانتا تک نہیں۔
معاملہ میں واضح طور پر کوئی گڑ بڑ تھی،

کو پڑھنا جاری رکھیں

وہ لڑکی پاگل سی

لاہور کے لاری اڈے پر امی جان بس سے اتریں تو ان کے ساتھ برقعے میں لپٹی ایک لڑکی بھی تھی۔
بیٹا اس بچی کا موبائل فون کھو گیا ہے۔ اس کے والد اسے لینے آتے ہی ہوں گے، ہم تب تک اس کے ساتھ انتظار کر لیتے ہیں۔
امی جان نے بتایا اور ہم وہیں انتظار کرنے لگے۔
شام رات سے گلے مل رہی تھی۔  کچھ دیر گزری تو والدہ نے اپنا فون اسے دیا اور والد کو کال کرنے کا کہا۔ اس نے نمبر ملا کر فون کان سے لگایا، اور کہنے لگی، ابو فون نہیں اٹھا رہے۔
لڑکی نے بتایا کہ اس کے والد صاحب قصور ہوتے ہیں، وہیں سے لینے آ رہے ہیں، شاید رش کی وجہ سے دیر ہو رہی ہے۔
کچھ دیر بعد والدہ نے مجھے کہا تم اپنے فون سے کال کرو۔ امی جان کے فون سے ڈائل کیے گئے نمبروں کی فہرست دیکھی تو حیرت ہوئی۔

کو پڑھنا جاری رکھیں