بادشاہ کی قبر پر زرد روشنی

مقبرہ جہانگیر کے داخلی دروازے پر بیٹھے شخص نے ٹکٹ کے پیسے تو وصول کر لیے، لیکن ٹکٹ نہ دی۔کہنے لگا، آپ ٹینشن نہ لیں، اندر چلے جائیں۔ ہمیں ٹینشن تو بہت ہوئی، یہ پیسے وہ حکومت کو پہنچانے کے بجائے اپنی جیب میں ڈالے گا۔ جہانگیر زندہ ہوتا تو ہم اسی وقت زنجیر عدل کھینچ دیتے۔
اندر پختہ روش پر نوجوانوں کی ٹولیاں کرکٹ میچ کھیل رہی ہیں۔ تاریخی عمارت میں جا بجا تاریخ لکھی ہے۔ کہیں کہیں فون نمبر بھی لکھے ہیں۔ جو کوئی آیا ہے، عمارت کی دیوار کو وزیٹرز بک سمجھ کر اپنے تاثرات رقم کر گیا ہے۔
میں نورالدین جہانگیر کی قبر پر خاموش کھڑا ہوں۔ دربان چھت کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے، یہ فانوس 1901 میں لگایا گیا۔ میں اوپر دیکھتا ہوں، 1901 کے فانوس میں فلپس کا ساٹھ واٹ کا بلب، بادشاہ کے جاہ و جلال پرمریل سی   روشنی بکھیر رہا ہے۔
واپسی پر وہی دربان میری طرف امید بھری نظروں سے دیکھتا ہے، شاید اپنی معلومات کے عوض کچھ رقم چاہتا ہے۔ جہانگیر زندہ ہوتا تو اسے موتیوں سے لاد دیتا، میں نظریں بچا کر نکل جاتا ہوں۔ کو پڑھنا جاری رکھیں