ہمارے دفتر کی کرسیاں

شاید آپ کو یہ جان کر حیرانی ہو، ہمارے دفتر میں کرسی کو رسی کے ساتھ میز سے باندھا جانے لگاہے۔ اور جب سے یہ چلن نکلا ہے، ہمیں کرسی اور کتے میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔
لیکن نوبت یہاں تک پہنچی کیوں؟ یہ کہانی آٹھ سال پہلے شروع ہوتی ہے۔
جب دفتر کا ڈول ڈالا گیا، اس وقت نئی کرسیاں منگوائی گئی تھیں۔تب ان کی چھب ڈھب نرالی تھی۔ ہاتھ مضبوط اور پیروں میں روانی تھی۔ پھر زمانہ قیامت کی چال چلتا گیا، اور یہ بے چاریاں اس کی رفتار کا ساتھ نہ دے سکیں۔
کچھ تو زیادتی کرسیاں استعمال کرنے والوں نے بھی کی۔ یعنی کام کرنے کےلیے بیٹھے تو وہیں پسار لیے۔ کرسی کی کمر نے مزاحمت کی تو زور لگا کراس کی ساخت اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لی۔کرسی کا سانچہ لیٹنے کی راہ میں حائل ہوا، تو اپنی تہذیب کا سانچہ ہی اتار پھینکا۔ اس زور زبردستی سے کئی کرسیوں کی کمر ٹوٹ گئی۔ کئی بے دست و پا ہوگئیں۔ آرام کرنے والوں کا تو کام بن گیا، لیکن جنہوں نے ان کرسیوں پر بیٹھ کر کام کرنا تھا۔۔۔وہ کسی کام کے نہ رہے۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

یہ ہے ایک ٹی وی چینل کا دفتر

آئیے آپ کو اپنے ٹی وی چینل کے نیوز روم کی سیر کراتے ہیں۔ جی ہاں، یہ بڑا سا کمرہ، جس میں مختلف افراد مختلف سمتوں میں بھاگتے پھر رہے ہیں، یہی نیوز روم ہے۔
ان میزوں کو آپ خبروں کا آپریشن ٹیبل سمجھ لیں۔ انہی میزوں پر بیمار خبروں کا آپریشن ہوتا ہے، اور تندرست خبروں کو فٹنس سرٹیفیکیٹ جاری کیا جاتا ہے۔
حیران نہ ہوں، لکڑی کےطویل تختوں کے نیچے لوہے کی ٹانگیں لگا کر اسے میز کا لقب دے دیا گیا ہے۔ویسے بھی نام میں کیا رکھا ہے، پھول کو جس نام سے بھی پکارو، رہتا تو وہ پھول ہی ہے نا۔یہاں محمود و ایاز ایک ہی صف میں بیٹھتے ہیں، اور میز سے اپنا دامن بچاتے رہتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ کئی جگہوں پر کھردری سطح کی رگڑائی  نہیں کی گئی۔ کہیں کہیں لوہے کا سرا لکڑی کو چیر کر باہر نکل آیا ہے۔ ان تمام مقامات آہ وفغاں سے اپنے کپڑے اور عزت محفوظ رکھنے کے لیے اسکاچ ٹیپ چپکائی جاتی ہے۔ کو پڑھنا جاری رکھیں