بیگم کو لینے جانا ہی پڑا

بیگم میکے میں تھیں۔ زندگی میں رنگ کوکتے تھے، بہاریں رقص کرتی تھیں، ہر دن عید اور ہر رات شب برات تھی۔ دوست ہر وقت مسکرانے کی وجہ پوچھتے، جواب ہوتا۔۔۔ اتنا جو ہم مسکرا رہے ہیں، بیگم کی جدائی کا غم چھپا رہے ہیں۔
آپ خدانخواستہ کچھ غلط نہ سمجھیے۔ خوف اہلیہ اور خوف الٰہی کے باعث ہم خاصے نیک چلن واقع ہوئے ہیں۔ لیکن پھر بھی بیگم کی موجودگی
کھٹکتی ہے دل شوہراں میں کانٹے کی طرح
کج بحثی کے شوقین حضرات شاید سوال کریں، بھری جوانی میں بے داغ زندگانی، پھر بھی بیگم کے ہونے سے پریشانی۔۔چہ معنی؟
دراصل داغ لگنے سے ڈر نہیں لگتا صاحب، داغ نکالنے سے لگتا ہے۔ جو برتنوں اور کپڑوں سے ہمیں نکالنے پڑتے ہیں۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

کیا بیگم کو لانا میری ذمہ داری ہے؟

بیگم اپنے میکے گئی ہیں اور زندگی گلزار ہے۔ ایک دن دفتری ساتھی پوچھنے لگیں، کب لا رہے ہیں بھابھی کو؟ واضح رہے کہ ہم لاہور میں قیام پذیر ہیں اور  سسرال اسلام آباد میں ہے۔ درمیان میں تقریباً چار سو کلومیٹر حائل ہیں، جنہیں پاٹنے میں دو ہزار پانچ سو روپے کا پیٹرول اور پانچ سو روپے کا ٹال ٹیکس بھی لگتا ہے۔ گویا بیگم کو لینے جانا اور واپس آنا بندے کو دس گھنٹے کے سفر اور چھ سے سات ہزار روپے میں پڑتا ہے۔ پیسہ تو یوں بھی ہاتھ کا میل ہے، بیگم کو چھوڑنے جا رہے ہوں تو چھبتا بھی نہیں، لیکن کیا ضروری ہے کہ بیگم کی واپسی کے لیے بھی اسی معاشی دہشت گردی کا ارتکاب کیا جائے؟ اور پھر عاجز کو اپنی تھکاوٹ کا بھی احساس رہتا ہے۔
بیگم کی واپسی سے متعلق پوچھنے والی کو جواب دیا، "لینے تھوڑی جائیں گے، خود آئیں گی وہ”۔ کو پڑھنا جاری رکھیں