براڈشیٹ کیس: شریف فیملی کے 80 کروڑ ڈالر، تحریک انصاف کے وزراء جھوٹ بول رہےہیں

تحریک انصاف کے وزراء کہہ رہے ہیں کہ شریف خاندان کے بیرون ملک 76 اثاثے ہیں جن کی مالیت 86 کروڑ ڈالر ہے۔ وزراء کے دعوے کے مطابق یہ بات براڈشیٹ کیس میں برطانوی عدالت کے فیصلے سے ثابت ہو گئی ہے۔
سینیئر صحافی فہد حسین نے 20جنوری 2021کو روزنامہ ڈان میں بہت تفصیل سے برطانوی عدالت کےفیصلے کا جائزہ لیا ہے۔ جسے پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے وزراء کس طرح غلط بیانی کر رہے ہیں۔
اردو قارئین کی سہولت کے لیے فہد حسین کی تحریر کا ترجمہ کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔
اصل متن سے پہلے مختصرپس منظر، ان لوگوں کے لیے جو براڈشیٹ کیس کےبارے میں نہیں جانتے۔
براڈشیٹ ایک کمپنی ہے جس کادعویٰ ہے کہ وہ بے نامی اثاثوں کی کھوج لگاتی ہے۔ مشرف دور میں اس سے معاہدہ کیاگیاکہ پاکستانیوں کے بیرون ملک پوشیدہ اثاثوں کا پتہ چلائے گی۔ ڈیل یہ تھی کہ براڈشیٹ جتنے اثاثوں کا پتہ چلائے گی، ان کا 20 فیصد اپنے معاوضے کے طور پر وصول کرے گی۔
2003میں نیب نےبراڈشیٹ سے یہ معاہدہ ختم کردیا (جن پاکستانی سیاست دانوں کے اثاثوں کا اس کمپنی نے کھوج لگایا، وہ حکومت کا حصہ بن گئے۔ سمجھا جاتا ہے کہ مشرف کی حمایت کی قیمت کیس ختم کرانے کی صورت وصول کی گئی)
نیب نے معاہدہ ختم کیا تو براڈشیٹ اس کے خلاف برطانوی عدالت میں چلی گئی۔ برطانوی عدالت نے براڈشیٹ کے حق میں فیصلہ دیا، اور دسمبر 2020میں نیب کو ساڑھے چار ارب روپے کے قریب جرمانہ ادا کرنا پڑا۔ جو ظاہر ہے حکومت پاکستان کی طرف سے ادا کیا گیا، اور عوام کی جیبوں سے گیا۔
جب حکومت پاکستان کو اپوزیشن کی تنقیداور عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑاتو اس نے براڈشیٹ کا فیصلہ منظر عام پر لانے کا فیصلہ کیا۔ اور ساتھ ہی اس فیصلے کو اپوزیشن کی کرپشن کا ثبوت قرار دیا۔
اب فہد حسین کی تحریر کا ترجمہ
حکومت براڈشیٹ کیس کا فیصلہ منظر عام پر لے آئی ہے۔ یہ فیصلہ پاکستان کی قانونی کارکردگی پر فرد جرم ہے۔ یہ فیصلہ دو دہائیوں میں حکومتوں اور نیب کی نااہلی اور سیاسی دھوکا دہی آشکار کرتا ہے۔
براڈ شیٹ کو ادا کیے گئے جرمانے کو اب اپنے اپنے بیانیے کی ترویج کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، اس بات سے قطع نظر کے فیصلے میں کیا نتائج اخذ کیے گئے ہیں۔ تحریک انصاف دلائل دے رہی ہے کہ براڈشیٹ فیصلے نے شریف خاندان کی کرپشن بے نقاب کی ہے اور کئی ممالک میں پھیلی ان کی جائیدادوں کی نشان دہی کی ہے جن کی کل مالیت 82 کروڑ ڈالر بنتی ہے۔ وفاقی وزراء شبلی فراز، فواد چودھری، شیریں مزاری نے منگل 19 جنوری 2021 کو پریس کانفرنس کی اور موقف اختیار کیا کہ برطانوی ثالث سر انتھونی ایونز نےاپنے فیصلے میں شریف فیملی کی جائیدادوں اور ان کی مالیت کی نشان دہی کردی ہے۔یہ اس بات کا ثبوت ہے براڈشیٹ فیصلے نے شریف خاندان کو بے نقاب کر دیا ہے۔
لیکن شاید یہ بات مکمل طور پر درست نہیں۔
صور ت حال کو سمجھنے کے لیے آسان اور سمجھ آنے والے انداز میں فیصلے کا جائزہ لیتے ہیں۔
فیصلہ دو دستاویز پر مشتمل ہے۔ پہلی دستاویز واجبات(liabilities) اور دوسری ان کی مقدار(Quantum) کے متعلق ہے۔
پہلی دستاویز میں ثالث نے بتایا ہے کہ براڈ شیٹ کے دعوے کیوں درست ہیں۔اس دستاویز میں وہ قانونی وجوہات بتائی گئی ہیں جن کی بنیاد پر براڈ شیٹ کیس جیتا ہے اور پاکستان یا نیب ہار گئے ہیں۔اور دوسری دستاویز میں ثالث نے وضاحت کی ہے کہ اس نے کس طرح اس رقم کا تعین کیا جو پاکستان یا نیب نے براڈشیٹ کو دینی ہے۔
وزراء کے دعوے کو جانچنے کے لیے (کہ شریف خاندان کی 82 کروڑ ڈالر مالیت کی جائیدادیں ثابت ہو گئیں) دستاویز کے دوسرے حصے کو دیکھنا ہو گا۔ ثالث نے وضاحت کی ہے کہ نیب کو جرمانے کے تعین کے لیے اس بات کا تعین بھی ضروری تھا کہ اگر نیب براڈشیٹ سے معاہدہ ختم نہ کرتا تو براڈشیٹ کو کتنی آمدن ہوتی۔یہ تو پہلی دستاویز میں ہی طے کر لیا گیا کہ 2003 میں نیب کی طرف سے معاہدہ ختم کیا جانا غیر قانونی تھا۔
شریف خاندان کی جائیدادوں کی مالیت کا اندازہ لگانے کے لیے ماہرین کو بلایا گیا۔ براڈ شیٹ نے سٹراز فرائیڈبرگ نامی مشاورتی ادارے کے ساتھ کام کرنے والے دو ماہرین کی خدمات لیں۔ ان ماہرین نے 2018 میں رپورٹ دی جس میں شریف فیملی کے اثاثوں کی فہرست موجود تھی اور اس کی مالیت کا تعین 82 کروڑ ڈالر کیا گیا تھا۔ یہ وہ اعداد ہیں جن کا ذکر وزراء نے پریس کانفرنس میں کیا یہ کہتے ہوئے کہ ماہرین نے ان کی نشان دہی کی ہے۔ لیکن وہ وزراء اپنے دعوے میں غلط ہیں کیوں کہ؛
فیصلے کے دوسرے حصہ (مقدار کا تعین) میں صفحہ نمبر 32 پر درج ہے
سٹراز فرائیڈ برگ کو جے آئی ٹی رپورٹ کا آڈٹ کرنے کے لیے کہا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں شریف فیملی کے جو ممکنہ طور پر قابل وصول اثاثے ہیں، اس کی نشان دہی کی جانی تھی، اور ان کی قیمت کا تعین کرنا تھا۔ اس کے نتیجے میں سٹراز فرائیڈ برگ کے ماہرین کے 76 اثاثوں کی فہرست بنائی جو تین ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔
یہاں رک جائیں، اور اس اہم فرق پر غور کریں جو کابینہ اراکین کے بیان اور فیصلے میں موجود ہے۔ فیصلے میں واضح طور پر لکھا ہے 76 جائیدادوں اور ان کی مالیت کی نشان دہی بین الاقوامی ماہرین کی آزاد تحقیقات کے نتیجے میں نہیں بلکہ اس جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں ہوئی جو سپریم کورٹ کے لیے تیار کی گئی تھی۔ دوسرے لفظوں میں شریف فیملی کی جائیدادوں پر براڈشیٹ کا فیصلہ کوئی نیا انکشاف نہیں بلکہ صرف جے آئی ٹی رپورٹ کا فارنزک آڈٹ ہے۔
لیکن کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔
پاکستان یا نیب نے بھی اپنا ایک ماہر بلایا، تاکہ وہ براڈشیٹ کے ماہرین کی رپورٹ پڑھیں اور اپنی رائے دیں۔ ان کا نام تھا مارک بزانٹ، جو ایف ٹی آئی کنسلٹنگ نامی ایک کمپنی سے تعلق رکھتے تھے۔
بزانٹ نے براڈشیٹ کے ماہرین کی رپورٹ میں چند خامیوں کی نشان دہی کی۔ اس نے کہا، براڈشیٹ ماہرین نے فہرست میں موجود چار آئٹمز کو دو دفعہ گنا ہے۔ جن کی مالیت چار کروڑ دس لاکھ ڈالر بنتی ہے۔ بزانٹ کے مطابق سٹراز فرائیڈ برگ نے یہ حساب بھی نہیں لگایا کہ جائیداد رکھنے والی کمپنیوں پر قرض کتنا ہے۔ (ظاہر ہے قرض کی رقم جائیداد کی مالیت سے منہا کی جائے گی) 76 جائیدادوں کی فہرست میں69ایسی ہیں جو شریف فیملی کے پاس اب ہیں ہی نہیں یا ان سے وصول نہیں کی جا سکتیں۔
اور اس کا مطلب ہے رقم کاجو اندازہ سٹراز برگ نے لگایا اصل رقم اس سے 98 فیصد کم بنتی ہے۔
بزنٹ نے اندازہ لگایا کہ براڈشیٹ کو پہنچنے والے نقصان کی مالیت زیادہ سے زیادہ 29 لاکھ ڈالر اور کم سے کم 23 لاکھ ڈالر ہے۔
براڈ شیٹ کے ماہرین اور نیب کے ماہرین کے تخمینوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ثالث یہ جاننے کی کوشش کر رہا تھا کہ شریف خاندان کی جائیدادوں کی مالیت کا اندازہ کیسے لگایا جائے تاکہ اس کا 20 فیصد براڈ شیٹ کو ادا کیا جا سکے۔ یہ سماعت جولائی 2018 میں ہوئی۔ اس وقت پاکستان میں نگران حکومت تھی۔
براڈ شیٹ کے ماہرین اور نیب کے ماہر کی آراء جاننے کے بعد ثالث نے اپنی رائے فیصلے کے صفحہ نمبر 34 پر لکھی ہے۔ اس کے مطابق ؛
سٹراز فرائیڈ برگ نے ان اثاثوں کی نشان دہی نہیں کی جو اس وقت شریف فیملی کے پاس ہیں۔ بلکہ اس نے تو ان جائیدادوں کی فہرست بنا دی ہے جو 20 سال یا اس سے بھی زیادہ عرصے سے ان سے منسوب کی جا رہی ہیں۔ اور جیسے کہ نیب کی جانب سے پیش کردہ ماہر نے بھی کہا کہ فہرست میں وہ رقم بھی لکھی ہے جس سے جائیداد خریدی گئی اور جائیداد کو بھی الگ سے لکھا ہے۔ یا پراپرٹی کی مالک کمپنی کے شیئرز کی قدر بھی درج ہے اور پراپرٹی کی قدر بھی درج ہے۔ یا ایک پراپرٹی بیچ کر اس سے حاصل شدہ رقم سے دوسری خرید لی گئی تو دونوں کی قیمت لکھی ہوئی ہے۔
ثالث نےاپنے فیصلے میں ، براڈ شیٹ کی طرف سے لائے گئے ماہرین کی رپورٹ میں سے ایک مثال دی ہے۔ کہ لاہور اسلام آباد موٹر وے میں سے کک بیک کی مالیت 16 کروڑ ڈالر درج ہے۔ براڈ شیٹ نے کہا کہ یہ رقم نواز شریف کے خلاف آئینی درخواست میں درج تھی۔ نواز شریف پر الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے یا ان کے ساتھیوں نے لاہور اسلام آباد موٹر وے بنانے والے ٹھیکے داروں سے رقم وصول کی۔ اس لیے براڈشیٹ اس میں اپنے حصے کی حق دار ہے۔
ثالث نے فیصلے کے صفحہ نمبر 35 پر لکھا، شواہد اس دعوے کی تصدیق نہیں کرتے کہ نواز شریف کے پاس 16 کروڑ ڈالر موجود تھے جو نیب ان سے وصول کر سکتی تھی، یا کر سکتی ہے، جب تک کہ ثابت نہ کر لے کہ اس رقم سے کوئی جائیداد بنائی گئی ہے جسے قرق کیا جا سکے۔
ثالث نے دونوں فریقین کی جانب سے مالیت کے تعین کا جائزہ لیا اور صفحہ 54 پر فیصلے میں لکھا۔ دستیاب شواہد کی بنیاد پر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ شریف خاندان سے قابل وصول رقم کی مالیت 10 کروڑ ڈالر بنتی ہے۔وصولی میں ممکنہ تاخیر کی پانچ فیصد کٹوتی کی جائے تو یہ 9 کروڑ 50 لاکھ ڈالر بنتے ہیں اور براڈشیٹ کا 20 فیصد حصہ 1 کروڑ 90 لاکھ ڈالر بنتا ہے۔
یہ ایک کروڑ 90 لاکھ ڈالر کل جرمانے (دو کروڑ 80 لاکھ ڈالر) کا زیادہ تر حصہ بنتے ہیں، جو حکومت پاکستان نے اپنے برطانوی سفارت خانے کے اکاؤنٹ سے دسمبر 2020 میں براڈشیٹ کو ادا کیا ہے۔
اب وزیراعظم عمران خان نے شبلی فراز، فواد چودھری اور شیریں مزاری پر مشتمل ایک کمیٹی تو بنائی ہے لیکن حکومت کوبھی چند سوالوں کے جواب دینا ہوں گے۔
پہلا : فیصلے سے واضح ہوتا ہے کہ ثالث اور ماہرین نے کوئی نئی تحقیقات نہیں کیں اور کسی نئی جائیداد کی نشان دہی نہیں کی جیسا کہ وزراء دعویٰ کر رہے ہیں۔
براڈ شیٹ کے حق میں فیصلہ، شریف فیملی کی حد تک، جے آئی ٹی رپورٹ اور اس میں درج جائیدادوں کی بنیاد پر دیا گیا ہے۔
دوسرا: فیصلے میں یہ واضح نہیں کہ جو جائیدادیں ظاہر ہیں ان کی مالیت کو کیسے شامل کیا گیا ہے۔ ڈان نے قانونی ماہرین کی رائے لی تو معلوم ہوا کہ نیب کی وصولی تو ان جائیدادوں کی بنیاد پر ہونی چاہیے جو ظاہر نہیں کی گئیں یا جن کے بارے میں ثابت ہو جائے کہ کرپشن کی رقم سے خریدی گئی ہیں۔
اعلان شدہ اور غیر متنازعہ جائیداوں سے وصولی کا مطالبہ نہیں کیا جا سکتا۔
لیکن اس کیس میں براڈ شیٹ کو ان جائیدادوں کی رقم کا بھی حصے دار بنایا گیا جن کا شریف فیملی نے اپنے اثاثوں میں اعلان کر رکھا ہے۔ اور یہ رقم پاکستان کو براڈشیٹ کو دینا پڑی۔
تیسری چیز بہت ہی دل چسپ ہے۔
براڈ شیٹ نے دعویٰ کیا کہ شریف فیملی کی جائیدادوں کی مالیت 82 کروڑ ڈالر ہے، ثالث نے کہا نہیں، مالیت صرف 10کروڑ ڈالر ہے۔ لیکن کابینہ کے وزراء عدالتی فیصلے کے بجائے براڈ شیٹ کے دعوے کو اپنی پریس کانفرنسز میں بیان کر رہے ہیں۔
یعنی اصل میں حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ 2018 میں جب یہ کیس چل رہا تھا، اس وقت براڈ شیٹ درست تھی اور حکومت پاکستان غلط تھی۔ معاملہ اور عجیب ہو جاتا ہے جب آپ اپیل کو دیکھتے ہیں۔
حکومت پاکستان نے 10 کروڑ ڈالر کے تخمینے کے خلاف اپیل کی، جو کہ اسے کرنی چاہیے تھی۔ اس اپیل کی سماعت 28 جون 2019 کو ہوئی۔ تب تحریک انصاف حکومت میں تھی۔ اس سماعت میں تحریک انصاف حکومت کے وکلاء نے برطانوی عدالت سے کہا کہ آپ نے جو تخمینہ لگایا اس کی کوئی وضاحت موجود نہیں، نہ وہ طریقہ بتایا گیا ہے کہ آپ اس تخمینے تک کیسے پہنچے لہذا براڈشیٹ کو شریف خاندان کے اثاثوں پر ایک کروڑ نوے لاکھ کیوں دیے جا رہے ہیں۔
وکلاء کے دلائل تھے کہ عدالت نے اس بات کی بھی کوئی وضاحت نہیں کی کہ اس نے مالیت کا تعین کیا کیسے، اس لیے فریق سمجھنے سے قاصر ہیں کہ فیصلہ کیسے کیا گیا اور کن شواہد کی بنیاد پر کیا گیا۔
دوسرے لفظوں میں۔ آج تحریک انصاف کے وزیر براڈ شیٹ کی جانب سے82 کروڑ ڈالر کے دعوے کو شریف خاندان کی کرپشن کا ثبوت کہہ رہے ہیں جب کہ تحریک انصاف حکومت کے وکیل تو 10 کروڑ ڈالر کے تخمینے کو بھی زیادہ کہہ رہے تھے۔ تحریک انصاف کو اپنے موقف میں اس تضاد سے رجوع کرنا ہوگا، اگر ممکن ہو تو۔

آپ اسی تحریر کی بنیاد پر بنائی گئی یہ ویڈیو بھی دیکھ سکتے ہیں

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s