پارلیمنٹ سے خیالی خطاب

جناب اسپیکر! میرا یقین کریں، میں نے کبھی کچھ غلط نہیں کیا، نہ ہی کبھی کچھ ٹھیک کیا ہے۔
یہ اپوزیشن والے سارے مل کر رولا ڈالتے ہیں۔ کہتے ہیں سات سوال پوچھیں گے۔ اب وزیراعظم بن کر بھی میں نے سوالوں کے جواب ہی دینے ہیں۔۔۔ یہ اسمبلی ہے یا اسکول؟
تھوڑا میرے سننے میں بھی مسئلہ ہے۔ اپوزیشن اور عوام جو کہتی رہے وہ نہیں سنائی دیتا، جو دل کہتا ہے وہ صاف سنائی دیتا ہے۔ اسی کا علاج کرانے تو میں لندن گیا تھا۔ وہاں ڈاکٹروں نے بتایا، میاں صاحب، مسئلہ آپ کے کانوں میں نہیں، آپ کی نیت میں ہے۔ آپ بس ریلیکس کیا کریں۔ یہاں بھی مجھے سننے میں غلطی ہوئی، انہوں نے ریلیکس کہا، میں رولیکس لینے گھڑیوں کی دکان پر پہنچ گیا۔
لوگ ہلکی پھلکی بھوک مٹانے کے لیے ٹک کھاتے ہیں، میں تو دیگ کی دیگ ٹکا جاتا ہوں۔ ایک دن دیگ کا ڈھکن اٹھایا ہی تھا کہ نکے منڈے کا فون آ گیا۔ آپ سے کیا چھپانا، یہ معصوم بھی ہمیشہ غلط وقت پر ہی فون کرتا ہے۔ کہنے لگا ابا جی اسی پھڑے گئے آں۔۔۔ پانامہ لیک ہو گیا ہے۔ بتایا نا، میرے سننے میں مسئلہ ہے، میں نے سمجھا بے چارے کا بھکانا لیک ہو گیا ہے۔ جب اس نے ساری بات سمجھائی تو میں نے کہا "یار اس سے تو ہماری بڑی بزتی ہو گی۔” کم بخت کہنے لگا، ابا جی پہلے کون سی ہماری بڑی عزت ہے۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

کیا اشتیاق احمد ابن صفی سے بڑے ناول نگار تھے؟

ہمیں جاسوسی ناول پڑھنے کی چاٹ اشتیاق احمد سے لگی۔ جب اشتیاق احمد کے ناول دستیاب نہ ہوتے تو فقط ناول پڑھنے کو مظہر کلیم ایم اے کی عمران سیریز بھی پڑھ ڈالتے۔ اس کے بعد عمروعیار کی کہانیوں کی باری آتی۔
جاسوسی ناول پڑھتے ہوئے بھوک لگتی نہ پیاس، کہانی ختم ہونے تک نیند ہی نہ آتی۔ کہانی ختم ہونے کے بعد بھی اسی کے سحر میں کھوئے رہتے۔ ہوم ورک میں بھی کوتاہی ہو جاتی، روز اسکول میں عزت افزائی کراتے۔
بڑے ہوئے تو سنا کہ جیسا جاسوسی ادب ابن صفی لکھ گئے ہیں ایسا کیا ہی کسی نے لکھا ہو گا۔ تھوڑے حیران ہوئے۔ یعنی ہم جیسا جاسوسی ناولوں کا رسیا ان سے ناواقف رہا۔ کیا انتظار حسین اور کیا امجد اسلام امجد، ہر کوئی اپنے کالموں میں انہی کو پاکستان کا اگاتھا کرسٹی اور آرتھر کونن ڈائل ثابت کرتا نظر آتا۔ کو پڑھنا جاری رکھیں