کوئی دوسرا چھاپتا ہے تو چھاپ دے

ماں کے عالمی دن پر کالم نگار عبدالقادر حسن نے اپنے کالم میں لکھا۔۔۔
جب میں اپنے اخباروں میں ماں کی بے حرمتی کی خبریں پڑھتا ہوں تو کانپ جاتا ہوں کہ ہمارا معاشرہ کس سمت جا رہا ہے۔ اب تو یہ خبر چھپتی ہے کہ ماں نے بیٹے کو نشے یا جوئے کے لیے رقم دینے سے انکار کیا تو بیٹے نے ماں کو قتل کر دیا۔ جس معاشرے میں ماں کی یہ اوقات باقی رہ جائے اس میں اور کیا کچھ نہیں ہو گا۔ مجھے یاد ہے کہ برسوں پہلے، رپورٹنگ کے ابتدائی زمانے میں پہلی بار یہ خبر ملی کہ کسی بیٹے نے ماں کو قتل کر دیا ہے۔ میں یہ خبر لے کر گھبرا گیا کہ اب اس خبر کا کیا کروں، اسے چھاپوں یا دبا دوں۔ یہ بھی ڈر تھا کہ کوئی دوسرا اخبار اس کو چھاپ دے گا۔ چنانچہ اسی پریشانی میں ایڈیٹر کے پاس گیا اور بتایا کہ نظامی صاحب یہ خبر ہے کیا کریں۔
ایڈیٹر کو اپنی والدہ ماجدہ یاد آ گئی یا کیا ہوا کہ وہ بالکل چپ ہو گئے۔ تھوڑی دیر بعد کہا کہ خبر کو ضایع کر دیں کوئی دوسرا چھاپتا ہے تو چھاپتا رہے، ہم یہ جرأت نہیں کر سکتے۔

خود سے چار معاہدے کرو۔۔۔اور اپنی زندگی جیو

ہم اکثر پرفیکشن یا تکمیل کا ایک تصور قائم کر لیتے ہیں۔ اور پھر ساری زندگی اس تصور کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں۔ ہم پرفیکٹ (مکمل ) اس لیے نظر آنا چاہتے ہیں تاکہ لوگ ہمیں تسلیم کریں۔ خود کو دوسروں کی نظر سے دیکھتےہیں۔  اسی خودساختہ پرفیکشن کی  عینک سے ہم دوسروں کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں اور ان سے بھی پرفیکٹ ہونے کی توقع کرتے ہیں۔
خود کو دوسروں سے تسلیم کراتے کراتے ہم اپنی زندگی جینا چھوڑ دیتے ہیں۔
اب آپ کے پاس دو راستے ہیں۔ یا تودوسروں کے نظریات کے آگے ہار مان لیں اور ان کی جیسی زندگی جینا شروع کر دیں۔ یا پھر اپنا ذہن استعمال کریں، اور اپنا راستہ خود متعین کریں۔
فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے، آپ نے دوسروں کی بات پر یقین رکھنا ہے، یا اپنے آپ پر؟
ذرا اس زندگی کا تصور کریں جس میں آپ کا رویہ دوسروں کے تابع نہیں، جس زندگی میں دوسرے آپ کو جج نہیں کر رہے۔ آپ کسی کی رائے کے محتاج نہیں۔ آپ کسی کو کنٹرول نہیں کر رہے اور کوئی آپ کو کنٹرول نہیں کر رہا۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

مرغے لڑانے والے صحافی

بدقسمتی سے شعبہ صحافت میں ایسے حضرات کا عمل دخل بڑھ گیا ہے، جو صحافت کو بھی حماقت کا مترادف سمجھتے ہیں۔ ایسے مبینہ صحافی خبر اور اشتہار میں زیادہ فرق نہیں کرتے۔۔۔اشتہار کی طرح خبر کو بھی ناچ ناچ کر بیان کرنا چاہتےہیں۔  یہ حضرات خبر اور ڈکار کے بارے میں ایک جیسے خیالات رکھتے ہیں، یعنی دونوں کو روکا نہ جائے۔ خبر اور ڈکار ،جب اور جہاں آئے، مار دیا جائے۔
ایسے صحافی خبر بنانے، سنوارنے، اور نکھارنے پر نہیں، صرف اسے چلانے پر یقین رکھتےہیں۔ لہذا خبر میں غلطیاں تو بہت ہوتی ہیں، خبریت بالکل بھی نہیں ہوتی۔مجھے لگتا ہے، ایسے حضرات شعبہ صحافت میں آنے سے قبل مرغے لڑاتے رہے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ دماغ نہیں لڑاتے، چونچیں لڑاتےہیں، اور آخر کار خبر کو بھی مرغ کی طرح  ہلال کردیتےہیں۔ کو پڑھنا جاری رکھیں