کیا میں کامیاب ہوں؟

یار میں تنگ آ گیا ہوں۔۔۔ اس نے تھکے تھکے انداز میں کی بورڈ پر انگلیاں چلاتے ہوئے کہا۔
کس چیز سے تنگ آ گئے ہو؟ میں نے فطری سا سوال پوچھا۔
یہی نا۔۔۔ اب دیکھو یہ بھی کوئی کام ہے جو میں کر رہا ہوں۔ اسے شاید مجھ سے کسی سوال کی توقع نہ تھی۔
پھر تم کون سا کام کرنا چاہتے ہو؟ میں نے مزید دلچسپی لی۔
اس نے تھوڑا سا سوچا، جیسے کچھ سوجھ نہ رہا ہو، پھر کہنے لگا، "یار کام تو یہی ٹھیک ہے، لیکن میری تنخواہ بھی تو دیکھو۔”
یعنی تمہاری تنخواہ بڑھا دی جائے تو اسی کام میں زیادہ دلچسپی لینے لگو گے؟ میرے سوال پر اس نے اثبات میں سر تو ہلایا لیکن چہرے کے تاثرات بتاتے تھے گویا اپنی ہی بات پر یقین نہ ہو۔
جس دوست سے یہ گفتگو ہوئی وہ ایک مناسب دفتر میں مناسب تنخواہ پر کام کر رہا ہے۔ دفتر لانا اور واپس لے جانا بھی انتظامیہ کے ذمے ہے، ایک حد تک طبی سہولیات بھی ادارہ ہی فراہم کرتا ہے۔۔۔ گویا اس کی نوکری بہت سوں کے لیے بہت مثالی ہے لیکن وہ خود اس سے بھی بڑھ کر کچھ چاہتا ہے۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

میری کتابوں کی ہجرت

یونیورسٹی کے ایام، ہوسٹل کے کمرے میں ایک الماری ملتی۔ اسی میں اسباب بھی رکھو اور کتابیں بھی۔ ڈھیر سا لگ جاتا۔ بس اوپر والی کتاب دسترس میں رہتی باقی ڈھیر میں دفن ہو جاتیں۔ ہوسٹل سے فراغت کے بعد ایک کٹیا کرائے پر لی تو سامان رکھنے کو سیکنڈ ہینڈ لوہے کی الماری بھی خریدی۔ اس میں خانے بنے ہوئے تھے۔ ایک طرف کپڑے ٹانگو، دوسرے میں دیگر مال و متاع۔ اب کتابیں کسی قدر ترتیب سے رکھنے کی صورت ہوئی۔۔۔ لیکن بے چاری الماری کے خانے کہاں تک ساتھ دیتے۔ پھر حالات ویسے کے ویسے۔ جو کتابیں نہ پڑھی ہوتیں، ان کی تہہ سامنے لگاتے، باقیوں کو پیچھے دھکیل دیتے۔ کبھی کبھار غلطی سے ان پڑھی کتاب پس منظر میں چلی جاتی تو سراغ ملتا نہ یاد رہتا۔ پچھلی صفوں میں موجود کسی کتاب کا باب پڑھنے کی ضرورت پڑتی تو پہاڑ کھودنے جیسی مشقت کرنا پڑتی۔ اور کتابیں بھی کوئی بہت زیادہ نہ تھیں۔۔۔ ناول اور ڈائجسٹ ملا کر چالیس پچاس کے لگ بھگ۔
شادی کے بعد ہم نے کتابوں کے لیے باقاعدہ الماری بنوانے کا فیصلہ کیا۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

پیاسا صحافی

ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک صحافی بہت پیاسا تھا۔ صبح سے پریس کلب میں بیٹھا تھا لیکن اس کے ہاتھ نہ ہی کوئی معقول خبر آئی، نہ ہی ماکول و مشروب۔ پیاس کے مارے برا حال ہو گیا۔
ہوتے ہوتے دوپہر کا وقت آیا لیکن خبر ندارد۔ صبح سے اس کا ایک بھی بیپر نہ ہوا تھا۔(ٹی وی پر براہ راست انٹرویو یا خبر دینے کو تکنیکی زبان میں بیپر کہا جاتا ہے)۔ بیپر دیے بغیر اس صحافی کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگے۔ اس نے پریس کلب کے ایک سیانے صحافی سے پوچھا۔۔۔ آج تو کوئی خبر ہی نہیں مل رہی۔ سیانے صحافی نے بتایا، بیٹا خبریں تو فیلڈ میں جانے سے ملتی ہیں۔ پیاسا صحافی بے چارہ پریس کلب جانے کو ہی فیلڈ میں جانا سمجھتا تھا۔
اس نے سیانے صحافی کی بات سنی ان سنی کر کے ادھر اُدھر فون گھمانے شروع کیے لیکن کوئی کامیابی نہ ملی۔ یونہی فون سے کھیلتے کھیلتے اسے ایک پیاری سی بلی نظر آئی۔ اس نے بلی کی فوٹیج بنانا شروع کر دی۔ فوٹیج بناتے بناتے پیاسے صحافی کو یاد آیا کہ وہ تو بہت سیانا بھی ہے۔ پس اس نے اپنے نیوز روم میں یہ فوٹیج بذریعہ وٹس ایپ بھیج دی۔۔۔ ساتھ ہی سنسنی خیز خبر بھی۔۔۔ بریکنگ نیوز (وہ جب بھی نیوز روم میں کوئی خبر لکھواتا، ساتھ بریکنگ نیوز کا سابقہ ضرور لگاتا) لاہور کی ڈیوس روڈ پر بلیوں کا راج۔ حکومت قابو پانے میں ناکام ہو گئی۔
نیوز روم میں بھی بہت سے پیاسے اور سیانے صحافی بیٹھے تھے۔ وہ صبح سے خبریں چلا چلا کر ہلکان ہو چکے تھے لیکن پیاس ختم ہونے میں آ رہی تھی نہ ہی ذہانت۔
تھوڑی ہی دیر بعد دنیا نے ٹی وی پر بریکنگ نیوز چلتے دیکھی
لاہور میں بلیوں کا راج، حکومت کہاں ہے؟
اور فوٹیج میں ایک معصوم سی بلی کھمبا نوچتے دکھائی دے رہی تھی۔