محبتوں کا شکریہ

ہم بنیادی طور پر شرمیلے واقع ہوئے ہیں۔ کہیں مرکز نگاہ بن جائیں تو نظریں جھک جاتی ہیں۔ اپنی شادی پر بھی نظریں ایسی نیچی کیں کہ ابھی تک نہیں اٹھائیں۔ کچھ تو حیا داری اور کچھ اپنی اٹھان بھی ذرا قدیم طرز پر ہوئی، ہم نے کبھی سالگرہ نہ منائی۔ جولائی میں پیدا ہونے کی وجہ سے سالگرہ گرمیوں کی چھٹیوں میں آتی ۔۔۔ گھر میں تو یہ دن منانے کا رواج ہی نہ تھا، اسکول کے دوست بھی بے خبر رہتے۔ اکثر تو سالگرہ والا روز ہمیں یاد ہی نہ رہتا۔
یہ بھی سوچتے کہ پیدا ہو کر ہم نے ایسا کون سا کمال کیا ہے جو خوشیاں منائی جائیں۔ اوپر سے یہ خیال دل میں بیٹھ گیا کہ زندگی کا ایک سال بڑھا ہے تو ایک کم بھی ہوا ہے، لہذا خوشی کے بجائے غم کا مقام ہے۔
یونیورسٹی کے دوستوں نے سالگرہ پر مبارک باد دینے کا انوکھا طریقہ اپنایا تھا۔ تحفے کہ طور پر وہ چیز دی جاتی جو وصول کرنے والے کی چھیڑ ہوتی۔ کسی کو چوزہ یا مرغا دیا جا رہا ہے، کسی کو سیاہ رنگ کا بت جس پر لکھا ہے چیتے کا مطلب سفید ہوتا ہے۔ ہمیں ایک جن نما قلم دیا گیا، بٹن دبانے پر جس کی آنکھوں سے سرخ روشنی نکلتی۔ ایسی چھیڑ چھاڑ سے ہم خوش تو ہوتے لیکن زندگی کا ایک سال کم ہونے کی فکر پھر بھی رہتی۔
بہرحال ریت رواج میں گندھ کر ہم دوسروں کو ان کی سالگرہ پر مبارک باد دے دیتے ہیں۔ کیک کھانے (اور کاٹنے) کی تقریب میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔ لہک لہک کر ہیپی برتھ ڈے ٹو یو بھی کہتے ہیں۔ لیکن جب ہمیں سالگرہ کی مبارک باد دی جائے تو جھینپ جاتے ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ہم خود کسی کا جنم دن یاد نہیں رکھ پاتے۔ البتہ ہم سے محبت کرنے والے ہمارا یوم پیدائش ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔ اب کی بار بھی یار عزیز صبح صبح ہمارے لیے سالگرہ کا تحفہ لیے آئے تو سب کو خبر ہو گئی۔ دفتر کے ساتھیوں نے بھی ہمیں اپنی محبتوں میں نہلا دیا۔ انہوں نے ہی کیک منگوانے کا بندوبست کیا۔ کیک لانے کے لیے انتہائی مہنگی گاڑی کی چابی اس فرد کے حوالے کی گئی جو گیئر لگانے لگتا ہے تو ہینڈ بریک جا پکڑتا ہے، اور جس کا ڈرائیونگ لائسنس بھی ابھی تک نہیں بنا۔ ہر کسی نے ہمیں اپنی دعاؤں سے آسودہ کیا۔ ہم حسب معمول لجاتے رہے۔ جب کیک کاٹنے کا وقت قریب آیا تو نبضیں ڈوبنے لگیں۔ اگلے گھنٹے کے لیے خبرنامے کی سرخیاں بنانا بھی ہماری ذمہ داری تھی، ہم ویسے ہی دفتری امور انجام دینے میں سست واقع ہوئے ہیں، بس جی چاہ رہا تھا کہ چھری جلد سے جلد چلا دی جائے۔
کیک کاٹا جائے۔۔۔ ہر جانب سے صدائیں بلند ہوئیں۔ تالیوں کی گونج میں ہم نے فرضی موم بتیاں بجھائیں اور کیک پر تکبیر پڑھ دی۔ مبارک سلامت کا شور ہوا، تصاویر لی گئیں۔ کیک کاٹنے اور بانٹنے کی ذمہ داری بھی ایک ساتھی نے نبھائی۔ ہم سمجھے کام تمام ہوا، لیکن محبت بھری فرمائش آئی کہ آپ کو کیک کھلانا چاہتے ہیں۔ اس بہانے بہت سا کیک ہمارے چہرے پر ملا گیا۔ اب اس نئے روپ کے ساتھ تصاویر کا نیا دور چلا۔ ہم لمحہ لمحہ اپنے دوستوں خیر خواہوں کی محبتوں میں ڈوبتے رہے۔ اللہ آپ سب کو بہت خوش رکھے۔ اللہ ایسے اچھے ساتھی ہر کسی کو نصیب فرمائے۔

2 thoughts on “محبتوں کا شکریہ

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s