بارہ عادتیں جو کامیاب بنائیں

سیانے کہتے ہیں کامیاب ہونا مشکل نہیں ہے، بس اپنے اندر کامیاب لوگوں والی عادتیں پیدا کرنا ہوں گی۔ سیانوں کی یہ بات ہم تک انٹرنیٹ کے ذریعے پہنچی، اور انٹرنیٹ کے ذریعے ہی ہم نے کامیاب لوگوں کی عادتوں کا کھوج لگایا۔
معلوم ہوا، کہ کامیاب لوگ اپنا (1) ہدف مقرر کرتے ہیں۔
(2) کامیاب لوگوں کی سوچ واضح ہوتی ہے۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہوتا ہے وہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اپنے خیالات کو ایک واضح سمت دینے کے لیے وہ اپنے اہداف ایک کاغذ پر (یا کمپیوٹر پر) لکھ لیتے ہیں۔ منصوبے پر عمل سے پہلے وہ لکھ کر اس کی جزئیات پر خوب غور کرتے ہیں۔ یعنی کے منصوبہ کیا ہے، کیا ہدف حاصل کرے گا اور یہ اہداف حاصل کرنے کے لیے کیا اقدامات کرنا ہوں گے۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

بس دو منٹ

ہمیں ہمیشہ سے آج کا کام کل پر چھوڑنے کی عادت ہے۔ کوئی اسائنمنٹ ملی ہو تو آخر وقت تک لٹکائے رکھتے ہیں۔ جمع کرانے میں ایک دن رہ جائے تو ہول اٹھنے لگتے ہیں ۔ تب جا کر کام شروع ہوتا ہے۔ ہر گھڑی دھڑکا لگا رہتا ہے، جیسے تیسے کر کے کام مکمل کرتے ہیں، نہ تو درست طریقے سے ناقدانہ نظر ڈال پاتے ہیں نہ ہی بہتری کے لیے کوئی وقت دے پاتے ہیں۔ بس اسائمنٹ مکمل ہوتے ہی متعلقہ فرد کے حوالے کرتے ہیں اور آئندہ ایسا نہ کرنے کے لیے خود سے وعدہ کرتے ہیں۔
اور اگلی بار پھر ایسی ہی صورتحال ہوتی ہے۔یعنی خیالی منصوبے تو بہت بناتے ہیں، لیکن آج کا کام کل پر چھوڑنے کی عادت نہیں جاتی۔
ایسی ہی شش و پنج کے دوران ہمیں دو منٹ کا قانون نظر آیا۔۔۔ یہ پڑھنے کے بعد سے کافی افاقہ ہے۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

دنیا کی سب سے میٹھی چیز کیا؟

دنیا کی سب سے میٹھی چیز کیا ہے؟
میں نے یہ سوال فیس بک پر پوسٹ کیا تو خاصے دلچسپ جواب موصول ہوئے۔
کسی کے نزدیک خوشامد دنیا کی سب سے میٹھی چیز تھی۔ کوئی زبان تو کوئی خود فریبی کو میٹھا بتاتا رہا
کسی کو دوستی میں مٹھاس ملی۔کسی کو آم رسیلے معلوم ہوئے تو کسی کو شہد ۔۔۔ ایک صاحب نے چینی، شہد اور گڑ کا محلول تجویز کیا۔
کمنٹ کرنے والی سبھی خواتین نے بچوں کو ۔۔۔ ان کی ہنسی کو دنیا کی میٹھی ترین چیز قرار دیا۔ ایک خاتون نے فہرست میں اپنے شوہر اور والدہ کی مسکراہٹ کا بھی اضافہ کیا۔9781907970610
بپسی سدھوا کے ناول ۔۔۔ دا کرو ایٹرز ۔۔۔ کا کردار فریڈی بھی یہی سوال کرتا ہے۔ اور خود ہی جواب دیتے ہوئے کہتا ہے
دنیا کی سب سے شیریں چیز ۔۔۔ ضرورت یا خواہش ۔۔۔ ہے۔
ضرورت ایک ظالم شخص کو رحم دل بنا دیتی ہے۔ خواہش ایک انا پرست کو خوشامدی بناتی ہے۔
آپ اسے حالات کہہ لیں یا ذاتی مفاد۔۔۔ آخر میں آپ کی ضرورت اور خواہش ہی آپ سے سب کچھ کرواتی ہے۔
جس شخص کو آپ دیکھنا بھی نہ چاہیں ۔۔۔ ضرورت پڑنے پر اس سے مسکرا کر بات کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
یہ ضرورت ہی ہے کہ آپ اپنے دشمن کو بھی بھائی بنا لیتے ہیں۔
کیا آپ بھی ناول کے کردار فریڈی کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں، کہ دنیا کی سب سے میٹھی چیز ضرورت یا خواہش ہے؟

بریک اپ

ہماری یونیورسٹی میں ایک ضمیر بھائی (فرضی نام) ہوا کرتے تھے۔ قد تو چھوٹا سا تھا لیکن کسرت وغیرہ کی وجہ سے ڈیل ڈول پہلوانوں والا بنا رکھا تھا۔ بات چیت بھی کرختگی سے کرتے، جو ارادتاً نہیں، عادتاً ہوتی۔ لہذا دیکھنے اور برتنے میں ضمیر بھائی خوفناک اور لڑاکا لگتے۔ واقفیت بڑھتی تو معلوم ہوتا درشتی کے سانچے میں ہم سا ہی انسان چھپا ہے۔ جو ہنستا مسکراتا ہے، قہقہے لگتا ہے، اداس بھی ہوتا ہے۔
ضمیر بھائی ہمارے روم میٹ کے دوست تھے۔ اس ناطے وہ کبھی کبھار ہمارے کمرے میں بھی آتے۔ سگریٹ پیتے، گپ لگاتے، چلے جاتے۔ ان دنوں شہر میں رہنے والوں کے لیے ہاسٹل میں رات گزارنا بڑی تفریح ہوا کرتی تھی۔ قالین بچھے ہیں، چار لوگوں کی گنجائش والے کمرے میں دس افراد ٹھنسے ہیں۔ ہاسٹل کی کینٹین سے چائے، پراٹھے، ساگ، آملیٹ، سینڈوچ۔۔۔ سبھی کچھ منگوا لیا گیا ہے۔ لگاتار قہقہے لگ رہے ہیں، درمیان میں کہیں کہیں کھانے پینے اور گفتگو کے لیے بھی وقت نکالا جا رہا ہے۔ کو پڑھنا جاری رکھیں