مشکوک اشتہار

اٹھائیس اگست کے روزنامہ ایکسپریس میں ایک اشتہار چھپا ہے۔ پرعزم نوجوانوں کے لیے ملازمت کے مواقع۔ بھئی ہم نوجوان نہ سہی، پرعزم تو ہیں ہی۔ کوئی بھی ایسا اشتہار دیکھیں تو اگلی نظر عمر کی حد والے خانے پر ڈالتے ہیں۔ ہماری عمر اشتہار دینے والے کے پیمانے پر پورا اترتی ہو تو ہم بھی اس ملازمت کو قابل توجہ سمجھتے ہیں۔
مذکورہ اشتہار میں امیدوار پچیس سے پینتیس سال عمر کا مانگا گیا ہے، گویا یہ اشتہار اگلے سال چھپتا تو ہم ملازمت کی درخواست دینے سے محروم رہ جاتے۔
ہماری تعلیمی قابلیت بھی اشتہار دینے والوں کے معیار کے مطابق ہے یعنی ایم اے ماس کمیونیکیشن (کم از کم سیکنڈ ڈویژن)۔ اہلیت کی دوسری شرط قدرے کڑی ہے، "غیر معمولی قابلیت کے حامل نوجوان جو مشکل ذمہ داریوں سے نبردآزما ہونے کی صلاحیت رکھتے ہوں”۔ ہر چند ہمارے ساتھ کام کرنے والے ہماری قابلیت اور صلاحیت کے بارے میں مشکوک رہتے ہیں، پھر بھی ہمیں ان دو عناصر کے خود میں پائے جانے کی خوش گمانی ہے۔ اشہتار میں انگلش اردو بولنے اور لکھنے کی صلاحیت بھی مانگی گئی ہے۔ زبان فرنگ ہمارے قابو میں نہ سہی، لیکن اردو میں گزارا کر ہی لیتے ہیں۔ اپنے تئیں ہم ہر لحاظ سے مثالی امیدوار ہیں لیکن کئی چیزیں اشتہار کو مشکوک بنا رہی ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ کہ مونو گرام ایک مقتدر ادارے کا سا ہے، یعنی دو تلواریں اور درمیان میں چمکتا چاند ستارا۔ لیکن یہ ادارہ عموماً بھرتی کے لیے ایسا ڈھکا چھپا انداز اختیار نہیں کرتا۔ جس اسامی کے لیے امیدوار چاہیے ہو وہ واضح طور پر درج کی جاتی ہے۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

نظر اور صبر

کیا بتائیں، عینک جب سے ناک اور اعصاب پر سوار ہوئی ہے، اپنی تو قسمت ہی پھوٹ گئی ہے۔ دیکھنے والے ہمیں پڑھا لکھا ، عقل مند اور دانش ور سمجھ لیتے ہیں۔ معاملہ یہاں تک رہے تو ٹھیک،  وہ تو ہماری فہم اور دانش کا امتحان بھی لینے لگتے ہیں۔ ہمیں  بحر اور عرض  کا فرق نہیں معلوم، یہ بین الاقوامی سیاست کے امور پوچھنے لگیں گے۔ ہم اپنے محلے کے کونسلر کو نہیں جانتے، یہ برطانیہ میں پاکستانی میئر منتخب ہونے پر رائے چاہیں گے۔
غرض، عجیب مشکل ہے۔ ہم عینک کو چھوڑنا چاہتے ہیں، یہ ہمیں نہیں چھوڑتی۔ عینک ان معاملات کو بھی دھندلا دیتی ہے جہاں آنکھوں کے تیر چلتے ہیں اور جگر کے آر پار ہوتے ہیں۔ ہمارے دل میں برپا ہیجان پر سردمہری کا خول چڑھا دیتی ہے، ہم بھی عینک کا حیا کرتے ہوئے جھینپ جھینپ جاتے ہیں۔
ہمیں عینک لگی کیسے؟ اس کے پیچھے بھی ایک کہانی ہے۔ بچپن سے ہی وہ دیدہ ور بننا چاہتے تھے جس کی فقط پیدائش کے لیے نرگس کو ہزاروں سال رونا پڑتا ہے۔ لیکن اس مقصد کے لیے مطلوبہ خوبیاں اپنی ذات میں عنقا تھیں۔ لہذا ہم نے اپنی  باطنی نالائقی کو عینک کی ظاہری بردباری سے چھپانے کا فیصلہ کیا۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

آخر ہم کرنا کیا چاہتے ہیں؟

یہ وہ سوال ہے جو ہم اکثر خود سے کرتے ہیں، اور کبھی اس کا شافی جواب نہیں پاتے۔ تبھی ہم نے گوگل کی معرفت کچھ سیانوں سے مشورہ لینے کا فیصلہ کیا۔
سوال سادہ سا ہے، ایسا کیا کیا جائے جو من کو بھی بھائے اور پیسے بھی چوکھے کمائے؟ بابا گوگل نےجن بُدھی دانوں کے خیالات ہم تک پہنچائے، وہ جان کر تھوڑی مایوسی ہوئی۔ یہ عاقل کہتے ہیں کام کوئی بھی کرو، کمائی کا مت سوچو۔ بس جو جی میں آئے وہ کرو، کرتے چلے جاؤ، کمائی کی صورت آپ ہی پیدا ہو جائے گی۔
بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی!
جب تک کچھ یافت ہو گی تب تک پاپی پیٹ کا کیا بندوبست ہو؟  کوئی ٹائم فریم بھی تو ہونا چاہیے نا۔اور جی میں بھی کوئی ایک خیال تھوڑی آتا ہے۔  یہ دانا فرماتے ہیں چار پانچ مشقیں کیجیے، آپ کی زندگی کا مقصد خود سامنے آن کھڑا ہو گا۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

اجر

ہوٹل ‘مکافات’ گئے ہو کبھی
کیا بہت اچھا مینیو ہے اس کا؟
ارے مینیو تو ہے ہی نہیں
جو عمل کیا ہو، اس کا پھل کھانا
پڑتا ہے

بیگم کو لینے جانا ہی پڑا

بیگم میکے میں تھیں۔ زندگی میں رنگ کوکتے تھے، بہاریں رقص کرتی تھیں، ہر دن عید اور ہر رات شب برات تھی۔ دوست ہر وقت مسکرانے کی وجہ پوچھتے، جواب ہوتا۔۔۔ اتنا جو ہم مسکرا رہے ہیں، بیگم کی جدائی کا غم چھپا رہے ہیں۔
آپ خدانخواستہ کچھ غلط نہ سمجھیے۔ خوف اہلیہ اور خوف الٰہی کے باعث ہم خاصے نیک چلن واقع ہوئے ہیں۔ لیکن پھر بھی بیگم کی موجودگی
کھٹکتی ہے دل شوہراں میں کانٹے کی طرح
کج بحثی کے شوقین حضرات شاید سوال کریں، بھری جوانی میں بے داغ زندگانی، پھر بھی بیگم کے ہونے سے پریشانی۔۔چہ معنی؟
دراصل داغ لگنے سے ڈر نہیں لگتا صاحب، داغ نکالنے سے لگتا ہے۔ جو برتنوں اور کپڑوں سے ہمیں نکالنے پڑتے ہیں۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

کیا بیگم کو لانا میری ذمہ داری ہے؟

بیگم اپنے میکے گئی ہیں اور زندگی گلزار ہے۔ ایک دن دفتری ساتھی پوچھنے لگیں، کب لا رہے ہیں بھابھی کو؟ واضح رہے کہ ہم لاہور میں قیام پذیر ہیں اور  سسرال اسلام آباد میں ہے۔ درمیان میں تقریباً چار سو کلومیٹر حائل ہیں، جنہیں پاٹنے میں دو ہزار پانچ سو روپے کا پیٹرول اور پانچ سو روپے کا ٹال ٹیکس بھی لگتا ہے۔ گویا بیگم کو لینے جانا اور واپس آنا بندے کو دس گھنٹے کے سفر اور چھ سے سات ہزار روپے میں پڑتا ہے۔ پیسہ تو یوں بھی ہاتھ کا میل ہے، بیگم کو چھوڑنے جا رہے ہوں تو چھبتا بھی نہیں، لیکن کیا ضروری ہے کہ بیگم کی واپسی کے لیے بھی اسی معاشی دہشت گردی کا ارتکاب کیا جائے؟ اور پھر عاجز کو اپنی تھکاوٹ کا بھی احساس رہتا ہے۔
بیگم کی واپسی سے متعلق پوچھنے والی کو جواب دیا، "لینے تھوڑی جائیں گے، خود آئیں گی وہ”۔ کو پڑھنا جاری رکھیں