بیگم میکے میں تھیں۔ زندگی میں رنگ کوکتے تھے، بہاریں رقص کرتی تھیں، ہر دن عید اور ہر رات شب برات تھی۔ دوست ہر وقت مسکرانے کی وجہ پوچھتے، جواب ہوتا۔۔۔ اتنا جو ہم مسکرا رہے ہیں، بیگم کی جدائی کا غم چھپا رہے ہیں۔
آپ خدانخواستہ کچھ غلط نہ سمجھیے۔ خوف اہلیہ اور خوف الٰہی کے باعث ہم خاصے نیک چلن واقع ہوئے ہیں۔ لیکن پھر بھی بیگم کی موجودگی
کھٹکتی ہے دل شوہراں میں کانٹے کی طرح
کج بحثی کے شوقین حضرات شاید سوال کریں، بھری جوانی میں بے داغ زندگانی، پھر بھی بیگم کے ہونے سے پریشانی۔۔چہ معنی؟
دراصل داغ لگنے سے ڈر نہیں لگتا صاحب، داغ نکالنے سے لگتا ہے۔ جو برتنوں اور کپڑوں سے ہمیں نکالنے پڑتے ہیں۔
لہذا بیوی کی عدم موجودگی میں جب ہم ہر دوسرے روز بلاگ لکھنے لگے، اور ہر تیسرے روز کسی فلم یا کتاب پر تبصرہ کرنے لگے تو یاروں کو فکر ہوئی۔ ہم بضد کے انہوں نے آنا ہے تو خود آ جائیں، یہ اصرار کریں کہ لانا ہماری ذمہ داری ہے۔ واضح رہے کہ نصف بہتر ہمارے دل میں قیام کرنے سے پہلے اسلام آباد میں رہتی تھیں، اور لاہور سے وہاں جانے آنے میں شماتت ہمسایہ کے ساتھ ساتھ نقصان مایہ بھی ہے۔
جانے کا ارادہ تو تھا لیکن یاروں کے چڑانے کو ایک بلاگ بھی لکھ مارا۔ عنوان تھا، کیا بیگم کو لانا ہماری ذمہ داری ہے؟
بلاگ شائع ہوا تو ہمیں اپنی خیریت خطرے میں پڑتی نظر آئی۔
اسلام آباد سفر کا قصد کیا لیکن آگاہ نہ کیا۔ سوچا تھا بغیر بتائے جائیں گے تو ان کی خوشی میں حیرانی بھی شامل ہو جائے گی۔ یہ خدشہ بھی سر پر سوار کہ انہوں نے گھر کے نمبر پر فون کر لیا اور ہمیں نہ پایا تو ہمارے ارادے کی بھنک نہ پا جائیں۔ لہذا ایک فون روانگی سے قبل کیا۔ کہا ان کی واپسی کی ٹکٹ بک کرانے کے لیے بس اڈے پر فون کرنے والے ہیں، کہنے لگیں آگے کی نشست مل جائے تو مناسب رہے۔
آدھا سفر کٹ گیا تو پھر فون کیا۔ کہا آگے کی نشست نہیں مل سکی، لہذا دو دن بعد کی بکنگ کرا دی ہے۔ وہ خفا ہوئیں، دو دن بعد کرانے کی کیا ضرورت تھی؟ ہم نے کہا آپ کا حکم تھا کیسے ٹالتے۔ فون رکھا ہی تھا کہ دوبارہ گھنٹی بجی۔ نصیحت کی گئی۔۔۔ بھلے آگے کی نشست نہ ملے لیکن دو دن کی تاخیر نہ کی جائے۔
رات نو بجے ہوں گے جب ہم ان کے دروازے پر پہنچے۔ فون پر کہا سیٹ نمبر تین چار پانچ بک ہو گئی ہیں۔ پوچھا کس دن اور کے سمے؟ ہم نے کہا اگلے روز کسی بھی وقت۔ سٹپٹائیں۔ عرض کیا جب آپ کا جی چاہے گا گاڑی آپ کو لاہور لے چلے گی۔ پھر بھی سمجھ نہ پائیں۔۔۔ ابھی ریسیور ہاتھ ہی میں تھا کہ ہم سامنے جا پہنچے۔ اس محبت بھری شرارت سے بہت لطف آیا، اور لوٹ کے بدھو بیگم کے ہمراہ لاہور کو آئے۔
اب بہت دنوں سے ہم وہ فلم دیکھنا چاہ رہے ہیں، بھلا سا جس کا نام ہے۔۔۔ دا ممی ریٹرنز ۔۔۔ لیکن فرصت ہے اور نہ ہی حاجت۔ مزید تفصیل کے بھی متحمل نہیں ہو سکتے، کیوں کہ اب برتن دھونے کا وقت ہو گیا ہے۔ بشرط مہلت پھر کبھی عرض احوال کریں گے۔