اینکروں کی اقسام

ٹیلی وژن پر خبرنامہ ترتیب دینے والے پروڈیوسر کو دو قسم کے اینکروں سے پالا پڑتا ہے۔ خبریں پڑھنے والے اینکر اور خبریں اجاڑنے والے اینکر۔ ان دونوں اقسام کو مزید ذیلی درجوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے
نخریلے اینکر: ہر روزدفتر آنے سے پہلے ان کی گاڑی، اور دفتر آنے کے بعد گلا خراب ہو جاتا ہے۔جس دن یہ دونوں چیزیں خراب نہ ہوں، اس دن ان کا موڈ خراب رہتا ہے۔  یہ اینکر اپنے پیشہ ورانہ فرائض بھی یوں انجام دیتے ہیں گویا دفتر والوں کی نسلوں پر احسان کر رہے ہوں۔ خبرنامے کی سرخیاں پڑھنے سے زیادہ سرخی لگانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

مرزا شاہین سیالکوٹی سے ملیے

اگرچہ ہماری ذہنی استعدادابھی بھی ایک میٹرک کے طالب علم سے زیادہ نہیں، لیکن کوچہ صحافت میں قدم رکھنے کے بعد حقائق سے نظریں چرانے کی عادت ہو گئی ہے۔ "اعلیٰ” تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ہم یہ مضمون ایسے شروع کرنے پر مجبور ہیں۔۔۔ آئی ہیو مینی فرینڈز، بٹ مرزا شاہین سیالکوٹی از مائی بیسٹ فرینڈ۔۔۔
مرزا شاہین  ایک فرد نہیں، کیفیت ہیں۔ ہمہ وقت کسی ممولے سے لڑنے کو بےتاب رہتے ہیں۔ ملک اور دین کے دشمنوں کو بری بری نظروں سے دیکھتے ہیں، کبھی کبھار زیادہ غصہ آجائے تو ایک آہ بھر کر آسمان کی جانب نظریں گاڑ لیتے ہیں۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

رپورٹر اور نیوز روم، ساس بہو کا رشتہ

رپورٹر سے خبر درکار ہے۔۔۔پوچھنےپر جواب ملے گا، "بس پانچ منٹ میں آ رہی ہے۔” کئی پانچ منٹ گزر جائیں گے۔ خبر نامہ شروع ہونے والا ہے۔ پروڈیوسر کے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہو رہی ہیں۔ گھڑی کی سوئی آگے کو سرکتی ہے لیکن وقت رکتا محسوس ہوتا ہے۔بار بار فون کرنے پر ایک ہی جواب ہے،”بس پانچ منٹ!”۔ پروڈیوسر کی پیشانی پر پسینہ چمکنے لگا ہے۔ آخر کمپیوٹرمیں متعلقہ خبر فائل ہونے کا اشارہ ملاہے۔ پروڈیوسر نےجلدی سے خبر کھولی، کچھ بھی نہیں لکھا ہوا۔ پھر فون کیا جاتا ہے۔ جواب ملتا ہے، "خبر لکھ کر رکھ لی تھی، بس کاپی اور پیسٹ کرنی ہے، پانچ منٹ اور۔۔” خبر نامہ شروع ہونے میں چند لمحے باقی ہیں، خبر آخر کار موصول ہو جاتی ہے۔ پڑھنے پر معلوم ہوتا ہے جو خبر بیس سیکنڈ کے لیے چلنی ہے، اس کا اسکرپٹ پانچ منٹ کا لکھا گیا ہے۔ پروڈیوسر اور کاپی ایڈیٹر دل پر ہاتھ رکھتے ہیں، اور کرسی پر ڈھے جاتے ہیں۔۔۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

صحافیوں کی اقسام

نیوز روم میں بھانت بھانت کے صحافی پائے جاتے ہیں۔ کسی کی باتوں سے خوشبو آتی ہے، تو کسی کی سوچ بھی ماحول بدبودار بنادیتی ہے۔ کوئی روتے میں بھی ہنسی بکھیر دیتا ہے اور کسی کا قہقہہ بھی خوفزدہ کر دیتا ہے۔ کسی کو گلے لگانے کا جی چاہتا ہے، اور کسی کا گلا دبانے کی خواہش ہوتی ہے۔ ہم نے قارئین کی سہولت کے لیے صحافیوں کو مندرجہ ذیل اقسام میں تقسیم کیا ہے۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

وہ جیو سے شرمندہ ہے

وہ تھکے تھکے قدموں سے ٹی وی اسٹیشن کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا۔
دفتر آنے سے پہلے وہ اخبار میں یہ خبر پڑھ چکا تھا۔۔۔”جیونے اہل بیت کی توہین کردی۔”
خبر پڑھتے ہی اس کا دل بیٹھ گیا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اب یہ خبر ٹیلی وژن  پر چلانے کے لیے بھی کہا جائے گا۔اسے معلوم تھا کہ چینل سے اختلاف کو اب مذہبی رنگ دیا جائےگا۔ جیو کی حرکت بہت قابل مذمت،  یہ حرکت کرنے والوں کی بھی گرفت ہونی چاہیے، لیکن اس کی یوں تشہیر۔۔۔معاملہ کہیں آگے برھتا نظر آ رہا تھا۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

حلیمہ کو میڈیا نے مارا

اصل کہانی پروگرام کے بعد شروع ہوتی ہے۔۔۔
7جون 2013 کو ایکسپریس نیوز پر ایک پروگرام پیش کیا گیا۔ ملتان ریجن سے تعلق رکھنے والی کچھ خواتین کھلاڑی اس پروگرام میں شریک ہوئیں اور ملتان کرکٹ کلب کے عہدے داروں پر جنسی نوعیت کے الزامات لگائے۔
پروگرام کے اینکر کرید کرید کر تفصیلات پوچھتے رہے، "ہوتا کیا ہے؟، کہتے کیا ہیں؟” جیسے سوالات کی تکرار کی گئی ، اور بار بار کی گئی۔
ایک خاتون نے بتایا کہ ٹیم میں شامل کرنے کے لیے ان سے کیا مطالبہ کیا گیا۔ وہ مطالبہ ایسا تھا کہ میں اسے لکھ نہیں پا رہا، البتہ وہ چینل پر دھڑلے سے نشر کر دیا گیا۔
کھلاڑیوں نے ایسی باتیں بھی کیں، "پہلے یہ آپ کو پاکستان کرکٹ ٹیم میں لے جانے کےخواب دکھائیں گے، لیکن پھر یہ آپ کو بیڈ روم لے جائیں گے۔” کو پڑھنا جاری رکھیں

صحافی کرےتوکیاکرے

صحافی دوسروں کی خبر لیتا بھی ہے، اور خبر دیتا بھی ہے۔لیکن پاکستان کاصحافی ایک ایسی بے یقینی کا شکار ہےجس کی خبر نہ کبھی بنی ہے اور نہ آئندہ کبھی بنے گی۔
ایک صحافی کی پیشہ ورانہ زندگی ان چار سوالوں کے جواب تلاش کرتے گزرتی ہے،خبر کہاں سے لینی ہے؟ کیسے لینی ہے؟ کیسے لکھنی ہے؟ اور کیسے پیش کرنی ہے؟
اور اسی صحافی کی نجی زندگی صرف ایک سوال کا جواب مانگتی ہے، "میری تنخواہ کب بڑھے گی، اور کتنی بڑھے گی؟”

کو پڑھنا جاری رکھیں

فلسطین کےنوحےمیں ایک نقطہ یہ بھی

فلسطینیوں پرٹوٹنےوالےمظالم انسانیت سوزہیں۔ اس پراسلامی برادری کی خاموشی مزیدافسوس ناک ہے۔فیس بک پر اپنے دفتری ساتھی فیصل وڑائچ کی یہ پوسٹ پڑھی تو شیئرکیے بنا نہ رہ سکا۔ وہ لکھتے ہیں
کسی کادل دکھےتومعاف کرنا
فلسطینیوں کےساتھ ظلم عظیم ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب اس کے مشرق میں داعش جیسی لڑاکا تنظیم اسرائیل سے بارہ گنے بڑے رقبے پر قبضہ کر چکی ہے۔ اور علامہ اقبال کے خواب سےبڑی اسلای سلطنت کا نقشہ جو انڈونیشیا سے سپین تک پھیلا ہوا ہے جاری کر چکی ہے۔ خون میں لتھڑے بےگناہ اور پھولوں سے معصوم بچوں کی تصویریں میں ایک بار پھر ایسے وقت میں دیکھ رہا ہوں جب غزہ کے شمال مشرق میں القاعدہ اور اس کی حامی مسلم فورسز شامی فوج کو ناکوں چنے چبا کر اسرائیل کے سائز سے ڈیڑھ گنا رقبے پر تسلط جما چکی ہے۔ معصوم بچوں کا قتل عام اس وقت ہو رہا ہے جب فلسطین کے جنوب میں مصر پر مسلح افواج کی حکومت ہے جن کی طاقت اخوان پر استعمال ہوتے سب نے دیکھی۔ یہ وہ وقت ہے جب غزہ کے جنوب مشرق میں دنیا کی چوتھی بڑی معاشی طاقت اور پہلی بڑی تیلی طاقت سعودی عرب امریکہ کا بیسٹ فرینڈ موجود ہے اور ایک لاکھ فوج اور طیارے مغربی بارڈ پر عراقی جنگجوؤں سے بچاؤ کیلئے کھڑی کر چکاہے۔ اس وقت بھی جب آُپ یہ سطریں پڑھ رہے ہیں اور میں لکھ رہا ہوں دس لاکھ سے زیادہ افراد طواف بیت اللہ کرتے ہوئے سعودی زرمبادلہ میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں یا بننے کی تیاری کر رہے ہیں۔ یہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب فلسطین کے جنوب میں واقع صحرائے صحارا میں اسرائیل سے پانچ گنا بڑے رقبے پر باکوحرام نے اپنے تئیں شریعت نافذ کر رکھی اور اسرائیل کے سوا تمام دنیا پر خلافت قائم کرنے کے دعوے وہ بم دھماکے کر کے کرتے رہتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہے جب دنیا کی پہلی دس بڑی معاشی طاقتوں میں شامل ترکی اسی ظالم اسرائیل کے جنوب مغرب میں موجود ہے۔ جس کے بحری بیڑے جب بحیرہ روم میں نکلتے ہیں تو فرانس کے سوا بحیرہ روم کے کنارے کنارے بسنے والا ایک ملک بھی اس سے آنکھ نہیں ملا پاتا۔ معصوم بچوں کی خون میں لت پت تصویریں دیکھتے ہی کلیجہ پھٹنے لگتا ہے لیکن میں کیا کروں بچپن سے مسلمانوں کو مسلمانوں کا خون بہاتا دیکھتا آیا ہوں اور جس میں کبھی کبھی غیر بھی پنجہ آزمائی کرتے ہیں

امریکی سازش

"شمالی وزیرستان میں آپریشن امریکی سازش ہے،” وہ غصے سے چلائے۔
میں حیران ہوا، ان سے وضاحت مانگی۔
کہنے لگے،”امریکا پاکستانی فوج کو افغانستان کےبارڈر پر پھنسائے رکھنا چاہتا ہے۔”
"اس کا کیا فائدہ ہو گا؟” میں  نے سر کھجایا۔
فرمایا، "امریکا چین کو گھیرنے کےچکر میں ہے۔ اس کےلیے  بھارت کی مدد درکار ہے۔ بھارت کے پاس بارہ لاکھ فوج ہے جو پاکستان کے ساتھ سرحد پر سینگ پھنسائے کھڑی ہے۔ اب امریکا پاکستان کو اپنے ہی لوگوں کے ساتھ لڑنے کےلیے پیسے دے رہا ہے، تاکہ پاکستانی فوج ملک کے اندر  مصروف ہو جائے، اور بھارت کی فوج چین کے ساتھ سینگ پھنسا لے۔”
میں نے پوچھایہی پیسے امریکا بھارت کو کیوں نہیں دیتا، تاکہ وہ چین سے پنگا لینے کے لیے مزید فوج بھرتی کرلے؟ کو پڑھنا جاری رکھیں

ایک اینکر کی کہانی

اخبار یا ٹیلی وژن میں عموماً صحافی کام کرتے ہیں، لیکن ان دنوں ایک خلائی مخلوق نے یہاں قبضہ جما رکھا ہے۔ اس خلائی مخلوق کا صحافت سے کتنا تعلق ہوتا ہے، واضح کرنے کے لیے ایک اینکر کا قصہ کہوں گا۔ یہ صاحب اپنے ٹاک شو میں "کھچ” مارتے رہتے ہیں۔ صحافتی اصول و ضوابط سے بالکل نابلد ہیں، اس لیے تمام پروگرام ہی یکطرفہ کرتے ہیں۔
یہ فروری 2010 کی بات ہے۔حکومت اور عدلیہ چند ججز کی تقرری پر شدید اختلافات کا شکار تھی۔ کو پڑھنا جاری رکھیں