تقریب سائیکل چلائی

IMG_20210228_101251

سوشل میڈیا پر انگوٹھا گردی کرتے مژدہ ملا کہ لاہور میں سائیکل چلانے کی کوئی تقریب ہونے جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ اس جملے میں انگوٹھا گردی، آوارہ گردی کےمترادف کے طور پر استعمال ہوا ہے، غنڈہ گردی کےمعنوں میں نہیں۔  گھر میں پڑی زنگ کھاتی سائیکل ٹھیک کرانے کا ارادہ کیا۔ فوراً بلال کو فون گھمایا۔ بلال سے اس وقت سے شناسائی ہے جب خادم باقاعدگی سے سائیکل چلایا کرتا تھا، اس کی دیکھ بھال اور مرمت وغیرہ کا اہتمام بلال صاحب ہی کیا کرتے۔ ان سے فون پر کہا، ابھی کے ابھی ہمارےگھرجا کر سائیکل اٹھا لائیے، اور اسے یوں کر دیجیے کہ سائیکل منہ زور گھوڑے کی طرح بھاگنے لگے۔
انہوں نے فرمایا، سائیکل صرف قوت تخیل کے سہارے چلتی تو منہ زور گھوڑے کی طرح بھاگ سکتی تھی، لیکن چوں کہ ایسا نہیں ہے لہذا سائیکل اتنی ہی رفتار سے چلے گی جتنی قوت سے آپ پیڈل مار پائیں گے۔ ٹھنڈی سانس بھر کر ایک نظر اپنے دکھتے گھٹنوں پر ڈالی اور بلال صاحب سے کہا، چلیے یوں ہی سہی لیکن آپ سائیکل تیار کر دیجیے۔اس پر برسوں سے پڑی گرد صاف کیجیے، زنگ کھرچ ڈالیے، ٹائروں کی ہوا پوری کر دیجیے۔ غرض ایسا کر دیجیے کہ سائیکل مسلمانوں کے ماضی کی طرح تاب ناک اور ناسا کے راکٹ کی طرح سبک ہو جائے۔
اتوار اٹھائیس فروری کا دن اس سائیکل ریس کےلیے طے پایا تھا ۔ وہ دن آنے تک ہم خواب میں بھی سائیکل ہی چلاتے رہے۔ ہفتہ کی رات،  صبح آٹھ بجے کا الارم لگا کر سوئے۔ عرصہ دراز سےطبیعت کچھ نوابی سی ہو چکی ہے۔ الارم سے آنکھ نہیں کھلتی، صبح چائے پیش کی جائے تو جاگتے ہیں۔ اتوار کی صبح بیگم کو چائے کے لیے اٹھانا ظلم محسوس ہوا، لہذا الارم پر ہی تکیہ کر کے سو گئے۔ اب صبح آٹھ بجے الارم بجتا ہے تو ازلی سستی اٹھنے نہیں دیتی۔ سنوز کا بٹن دباتے اور پکا ارادہ کرتے کہ بس دس منٹ اور سونے کے بعد اٹھ جائیں گے۔ جب تیسری بار الارم سنوز کیا تو بیگم نے تنگ آ کر چائے اور ناشتہ لا دیا۔ تب اٹھے ، نہائے ، دھوئے۔ کپڑے بھی دفتر والے پہن لیے، کہ  تقریب سائیکل چلائی سے واپسی پر سیدھے دفترہی  چلے جائیں گے۔
سائیکل لے کر لبرٹی چوک  کی طرف چلے تو اندازہ ہوا جس کام کو ہم بہت سہل سمجھے تھے وہ اتنا بھی سہل نہیں۔ وہ زمانے کب کے گزر چکے جب انگ انگ میں بجلی بھری تھی اور ہم سائیکل کو اڑائے پھرتے تھے۔ یہاں تو ایک پیڈل مارنے سے سانس دھونکنی کی طرح چلنے لگی، ایڑی سے چوٹی تک پسینہ بہنے لگا۔
خدا خدا کر کے سینٹر پوائنٹ تک پہنچے تو وہاں سے لبرٹی جانے والی سڑک دونوں اطراف سے کنٹینر کھڑے کر کے بند کی گئی تھی۔ پہرے دار چوکس کھڑے تھے ۔ بتایا گیا ، یہ سب اہتمام سائیکل سواروں کےلیے ہے۔ آج کے دن اس سڑک پر چڑیا تو پر مار سکتی ہے لیکن کوئی کار نہیں جا سکتی۔
تیز تیز پیڈل چلاتے لبرٹی چوک کی طرف چلے۔ دور سے ہی ابرارالحق کی ریکارڈڈ آواز صدا دے رہی تھی۔ آ جا نی بہ جا سائیکل تے۔جابجا بینرز نصب تھے جو آج کی تقریب کا اعلان کر رہے تھے۔ ان بینرز پر نظر پڑی توجھٹکا لگا۔ کیوں کہ  جس دس بجے کو ہم تقریب شروع ہونے کا وقت سمجھے بیٹھے تھے، وہ تقریب ختم ہونے کا وقت تھا۔
قصور ہمارا ہی تھا، صبح آٹھ بجے اٹھنے کا تصورکب سے بھلا بیٹھے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس تقریب سے متعلق پوسٹ دیکھی تو صرف دس نظر آیا، آٹھ پر نگاہ پڑی بھی تو دماغ نے اس پر غور نہ کیا۔
اپنے پہنچنے تک تقریب ختم ہو چکی تھی۔ انعامات بھی تقسیم کیے جا چکے تھے کہ چند افراد کو ہاتھوںمیں ٹرافیاں پکڑے شاداں اور مسرور پایا۔  ایک صاحب مائیک ہاتھ میں پکڑے  اردو گفتگو میں غلط انگریزی کے ٹکڑے جوڑ کر بتا رہے تھے کہ آج کی تقریب کتنی اچھی رہی ۔ اور صبح آٹھ بجے سے لے کر دس بجے تک سائیکل چلانے سے ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کی جانب ایک ایسا قدم اٹھا لیا گیا جو انسان کے لیے تو بس ایک قدم ہے لیکن انسانیت کے لیے بہت بڑی چھلانگ ثابت ہو گا۔ وغیرہ وغیرہ۔
اس فکر آمیز تقریر کے دوران ہی فیصلہ کیا کہ تقریب میں شریک ہونے کا  کوئی تصویری ثبوت گھڑ لیا جائے جو سوشل میڈیا والوں کو دکھا سکیں، اور داد وغیرہ پا سکیں۔ دادکے طلب گار یوں ہیں کہ چلیں تقریب کے دوران سائیکل نہیں چلائی، لیکن اپنے گھر سے سات کلومیٹر دور لبرٹی چوک تک تو سائیکل چلائی۔ اور واپس بھی اسی سواری  پرہوئی۔  تو قریب چودہ کلومیٹر کی سائیکلنگ وہ بھی اس ڈھلتی عمر میں۔منتظمین ہمیں وہاں دیکھ پاتے تو ایک عدد انعام حوصلہ افزائی کا ہی دے دیتے۔

1 thoughts on “تقریب سائیکل چلائی

تبصرہ کریں