چلتے ہو تو لاہور میں چلیے

لاہور میں پیدل چلنا بھی ایک منفرد تجربہ ہے۔
مال روڈ پر نہر سے چڑیا گھر کی طرف جائیں تو پہلے اشارے پر ایک بورڈ لگا ہے۔ بورڈ بتاتا ہے کہ دائیں ہاتھ سرآغا خان روڈ ہے، لاہوری کہتےہیں نہیں، یہ تو ڈیوس روڈ ہے۔ آپ ڈیوس روڈ پر آگے بڑھیں گے تو ایک پرفضا پہاڑی مقام آئے گا۔ یہ شملہ پہاڑی ہے۔ اسے دیکھ کر سر پر باندھنے والا شملہ بھی یاد آتا ہے،  اور پاکستان ٹوٹنے کےبعد بھارت کے شہر شملہ میں ہوا امن معاہدہ بھی ۔ پہاڑی کے پہلو میں صحافیوں کا کلب ہے۔ بااختیار افراد کے ستائے مظلوم اسی کلب کے سامنے احتجاج کرتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ ان کی صدا میڈیا کے ذریعے ارباب اختیار تک پہنچائی جائے گی۔ وہ ابھی تک سیکھ نہیں پائے کہ اس ملک میں صرف اسی کی سنی جاتی ہے جو دولت مند ہو، یا جتھ بند ہو۔
مظاہرین کی صداؤں سے کان بند کرتے ہوئے ایمپریس روڈ پر ہو لیجیے،  تو بائیں ہاتھ ریڈیو پاکستان کی عمارت آئے گی۔ ففتھ جنریشن کی جنگوں سے پہلے جنگی نغمے یہیں سے نشر ہوتے تھے۔ یہاں سے آگے جائیں گے تو پولیس والے ہر کسی کو مشکوک نگاہوں سے دیکھ رہے ہوں گے۔ یہ پولیس لائنز قلعہ گجر سنگھ ہے۔ یہاں سے نظریں چرا کر آگے بڑھ جائیے تو دائیں ہاتھ ایک عمارت ہے۔ یہاں رک پر آپ ہنس پڑیں گے۔ کیوں کہ عمارت کی بیرونی دیوار پر لکھا ہے ۔۔۔پاکستان ریلوے، ہر وقت۔بروقت۔۔۔ یہ مضحکہ خیز دعویٰ پڑھ کر ایک ریلوے انجن تو ایسا حواس باختہ ہوا کہ اپنی جگہ جم کر رہ گیا۔ اور آج تک ہٹایا نہیں جا سکا۔ جہاں یہ عبارت درج ہے، اور جہاں یہ انجن کھڑا ہے۔۔یہ ریلوے ہیڈکوارٹرز ہے۔ نہ یہ انجن چلتا ہے اور نہ ہی محکمہ ریلوے۔
اس سڑک کو ایمپریس روڈ یقیناً ملکہ برطانیہ کی نسبت سے کہا جاتا ہو گا۔ آپ مہاراجہ کی طرح مزید آگے چلیں گے تو کشادہ کشادہ سی ایمپریس روڈ تنگ ہوتی محسوس ہوگی۔ یہاں سڑک کی تین لینزمیں سے ڈیڑھ پر ریڑھیاں کھڑی ہیں اور ریڑھیوں پر لنڈے کا مال سجا ہے۔ برطانوی  استعمار کی نشانی ایمپریس روڈ یہاں آ کر غریب پرور بن چکی ہے۔ یہاں سے تن ڈھانپنے کو وہ کپڑا ملتا ہے جو سفید پوشی کا بھرم رکھتا ہے۔
انگریز برصغیر پر قابض ہوا تھا۔ انگریزوں کی اترن بیچنے والے اس سڑک کے بڑے حصے پر قابض ہیں۔ گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں پر سوار کچھ تو یہاں سے بچ بچا کر گزر جاتے ہیں، کچھ سڑک کے درمیان ہی سہولت سے اپنی سواری کھڑی کر کے خریداری کرتے ہیں۔اس وجہ سے یہاں ٹریفک رک رک کر، لیکن وقت اپنی رفتار سے ہی چلتا جاتا ہے۔ انہی ریڑھیوں کے درمیان ذرا آگے بڑھیں گے تو ایمپریس روڈ اور نکلسن روڈ آپس میں گلے مل رہی ہوں گی۔ اس چوراہے پر دائیں ہاتھ  لنڈابازار ہے۔ یہاں نئے پرانے جوتے، بیگ، گھڑیاں،سجاوٹ کا سامان ، برتن وغیرہ بھی ملتے ہیں۔ یہیں ایک ریڑھی پر قسم قسم کی مورتیاں بے حس و حرکت کھڑی ہیں۔ شاید یہ اس دیس سے آئی ہیں جہاں پیچھے مڑ کر دیکھنےوالا پتھر ہو جاتا ہے۔
اس لنڈا بازار کے ایک کونے میں چائے کا ڈھابہ بھی ہے۔ دیگچی میں ابلتی چائے آپ کی طلب بڑھا دے گی۔ آپ ڈھابے والے سے ایک کپ چائے مانگیں گے اور چینی کم ڈالنے کی تاکید کریں گے۔ وہ آپ کی صرف پہلی بات سنے گا، کیوں کہ بے تحاشا چینی وہ پہلے ہی دیگچی میں ڈال چکا ہے۔
چائے پینے کے بعد آپ تازہ دم ہو چکے ہوں گے۔ تو لنڈا بازار سے نکل کر نکلسن روڈ پکڑ لیجیے۔ یہیں بائیں ہاتھ دارالحجاج ہے۔  جنہیں بلاوا آتا ہے وہ یہاں حاضری کے آداب سیکھتےہیں۔ آپ کا ابھی بلاوا نہیں آیا، ابھی آپ نے مزید دعائیں کرنی ہیں۔ نکلسن روڈ کے درمیان ہی سڑک پر ستون گڑے ہیں۔ اوپر پٹڑی بچھائی گئی ہے۔ پٹڑی پر اورنج لائن  میٹرو ٹرین آتی اور جاتی ہے۔ اس جدید ٹرین کے نیچے رہنےوالی دنیا ابھی تک قدیم ہی ہے۔ یہی نکلسن روڈ آگے چل کر میکلوڈ روڈ بن جاتی ہےاور انسانوں کے ساتھ ساتھ کھانوں کو بھی ذات پات اور علاقوں میں تقسیم کر دیتی ہے۔ کہیں کڑاہی، بٹ بن جاتی ہے، کوئی چائے اعلان کرتی ہے کہ وہ کوئٹہ کی ہے۔  ایک ریستوران تو براعظمی نوعیت کا ہے، اس کا نام پاک ایشیا ہے۔
آگے بڑھتے جائیں تو لاہور کا مرکزی ڈاک خانہ آ جائے گا۔ سیاں کو لکھی چٹھیاں یہیں سے لاپتہ ہوتی ہیں۔ لاپتہ انصاف کو ڈھونڈ کر دینے والی عدالت  بھی ڈاک خانے کے سامنے ہے۔ اس عمارت سے کسی کو انصاف ملتا ہے، اور کسی کو لامتناہی انتظار۔ یہاں سے استاد اللہ بخش روڈ پر آگے جائیں تو جو آمدن آپ کماتے نہیں اس پر بھی محصول وصول کرنے والے کسٹمز اور ٹیکس کے دفاتر ہیں۔ ٹیکس نہیں دینا، کم دینا ہے، یا اتنا ہی دینا ہے جتنا بنتا ہے تو کسٹم ہاؤس کے ساتھ ہی قدیم سی عمارت میں چلے جائیں۔ اس پر ”نعیم اینڈ کمپنی، پبلک اکاؤنٹنٹس، آڈیٹرز،رجسٹرڈ انکم ٹیکس پریکٹیشنرز “ کا بورڈ لگا ہے۔ بورڈ پر درج عبارت کے مطابق کمپنی بنے تو صدی ہو چلی، جس عمارت میں یہ کمپنی ہے وہ جانے کب بنی ہو گی۔
اس عمارت کودیکھ کر لگے گا کہ شاید آپ کو بھی چلتے چلتے صدیاں بیت گئی ہیں۔ لنڈے بازار کی چائے سے جو توانائی آپ نے لی تھی، یہاں تک پہنچتے پہنچتے وہ بھی  دم توڑ چکی ہو گی۔ تو واپسی کا قصد کیجیے اور ارادہ باندھیے کہ پھر کسی اور روز،لاہور کے کسی اور مقام پر پیدل گشت کیا جائے گا۔
لاہور کی جن سڑکوں سے گاڑیوں یا موٹرسائیکلوں پر آپ زن سے گزر جاتے ہیں، کبھی یہاں پیدل چلنے کا تجربہ کیجیے۔ الگ ہی  احساس ہو گا۔ ایک احساس تو یہ ہو گا کہ یہ مہربان شہر پیدل چلنے والوں کےلیے خاصا نامہربان ہے۔ چلنے والوں کےلیے فٹ پاتھ اول تو کوئی ہے نہیں۔ جہاں ہے، وہاں بھی کسی نے گاڑی چڑھا رکھی ہے اور کسی نے ٹھیا بنا رکھا ہے۔ جس کو ہو جان و دل عزیز، وہ پیدل یہاں سے جائے کیوں؟ لیکن لاہور جیسے شہر دل پذیر کو چھاننے کے لیے جان و دل کی پروا کون کرتا ہے۔

نام نہ تھا، پھر نواز شریف کو کیسے پھنسایا؟ – پانامہ کہانی قسط 3