ماں کے عالمی دن پر کالم نگار عبدالقادر حسن نے اپنے کالم میں لکھا۔۔۔
جب میں اپنے اخباروں میں ماں کی بے حرمتی کی خبریں پڑھتا ہوں تو کانپ جاتا ہوں کہ ہمارا معاشرہ کس سمت جا رہا ہے۔ اب تو یہ خبر چھپتی ہے کہ ماں نے بیٹے کو نشے یا جوئے کے لیے رقم دینے سے انکار کیا تو بیٹے نے ماں کو قتل کر دیا۔ جس معاشرے میں ماں کی یہ اوقات باقی رہ جائے اس میں اور کیا کچھ نہیں ہو گا۔ مجھے یاد ہے کہ برسوں پہلے، رپورٹنگ کے ابتدائی زمانے میں پہلی بار یہ خبر ملی کہ کسی بیٹے نے ماں کو قتل کر دیا ہے۔ میں یہ خبر لے کر گھبرا گیا کہ اب اس خبر کا کیا کروں، اسے چھاپوں یا دبا دوں۔ یہ بھی ڈر تھا کہ کوئی دوسرا اخبار اس کو چھاپ دے گا۔ چنانچہ اسی پریشانی میں ایڈیٹر کے پاس گیا اور بتایا کہ نظامی صاحب یہ خبر ہے کیا کریں۔
ایڈیٹر کو اپنی والدہ ماجدہ یاد آ گئی یا کیا ہوا کہ وہ بالکل چپ ہو گئے۔ تھوڑی دیر بعد کہا کہ خبر کو ضایع کر دیں کوئی دوسرا چھاپتا ہے تو چھاپتا رہے، ہم یہ جرأت نہیں کر سکتے۔
کیسی کیسی تبدیلیاں چشمِ فلک نے دیکھی
پسند کریںپسند کریں
Reblogged this on atifashraf.
پسند کریںپسند کریں
نوجوان ! اپنی کوششیں جاری رکھو انشاء اللہ اپنے ہدف پر یقیناً پہنچو گے !
پسند کریںLiked by 1 person