کیا اشتیاق احمد ابن صفی سے بڑے ناول نگار تھے؟

ہمیں جاسوسی ناول پڑھنے کی چاٹ اشتیاق احمد سے لگی۔ جب اشتیاق احمد کے ناول دستیاب نہ ہوتے تو فقط ناول پڑھنے کو مظہر کلیم ایم اے کی عمران سیریز بھی پڑھ ڈالتے۔ اس کے بعد عمروعیار کی کہانیوں کی باری آتی۔
جاسوسی ناول پڑھتے ہوئے بھوک لگتی نہ پیاس، کہانی ختم ہونے تک نیند ہی نہ آتی۔ کہانی ختم ہونے کے بعد بھی اسی کے سحر میں کھوئے رہتے۔ ہوم ورک میں بھی کوتاہی ہو جاتی، روز اسکول میں عزت افزائی کراتے۔
بڑے ہوئے تو سنا کہ جیسا جاسوسی ادب ابن صفی لکھ گئے ہیں ایسا کیا ہی کسی نے لکھا ہو گا۔ تھوڑے حیران ہوئے۔ یعنی ہم جیسا جاسوسی ناولوں کا رسیا ان سے ناواقف رہا۔ کیا انتظار حسین اور کیا امجد اسلام امجد، ہر کوئی اپنے کالموں میں انہی کو پاکستان کا اگاتھا کرسٹی اور آرتھر کونن ڈائل ثابت کرتا نظر آتا۔
ابن صفی کو پڑھنے کی خواہش جاگی تو کہیں سے ان کے ناول نہ ملیں۔ پرانی کتابوں کے ایک ٹھیے پر نظر آئے تو خریدنے کو بے تاب ہو گئے۔ ناولوں پر قیمت پانچ روپے لکھی تھی۔ دکان دار نے پندرہ مانگے۔ اس سے پہلے صرف پلاٹوں کی ہی قیمت بڑھتے دیکھی تھی۔ احتجاج کیا کہ میاں پرانی کتابوں کے دام تو اصل سے کہیں کم ہوتے ہیں تم الٹا تین گنا مانگ رہے ہو، مگر وہ قیمت کم کرنے پر آمادہ نہ ہوا۔
اس کے پاس پانچ چھ ناول پڑے تھے، سب اٹھا لائے۔ گھر آ کر دیکھا تو ادھورے تھے۔ کوئی صرف پہلا حصہ تھا، باقی کی کہانی غائب۔ کوئی درمیانہ حصہ تھا اور شروع کی کہانی ندارد۔ بدمزہ ہوئے۔ جتنا پڑھا اس نے کچھ خاص متاثر نہ کیا۔ یہی سوچتے رہے کہ تسلسل میں کہانی ملتی تو شاید اتنا لطف آتا جتنا بڑے بیان کرتے ہیں۔
وقت گزرتا رہا اور ابن صفی کا خیال ہلکی آنچ پر پکتا رہا۔ ایک روز اخبار میں اشتہار پڑھا کہ ابن صفی کی لکھی عمران سیریز اور جاسوسی دنیا کے تمام ناول دوبارہ شائع کیے گئے ہیں۔ بے چین ہو گئے۔ فون ملایا اور تمام ناول بھجوانے کی درخواست کی۔ قیمت زیادہ تھی لہذا کچھ ترمیم کی، کہا ایک ہزار روپے میں جاسوسی دنیا اور عمران سیریز کے جتنے ناول آ جاتے ہوں وہ بھجوا دیے جائیں۔
ناول آنے کے خیال سے وہی سنسنی طاری ہوئی جو بچپن میں ہوا کرتی۔ لیکن پڑھا تو ابن صفی کا جو بت تراش رکھا تھا وہ چھن سے ٹوٹ گیا۔ ان میں وہ لطف ہر گز نہ تھا جس کی ہوا باندھی گئی تھی۔ ابن صفی کو بڑا جاسوسی ادیب قرار دینے والوں پر بھی پیچ و تاب کھائی۔
خیر، بعد کو دل کی تسلی کے لیے ایک نتیجے پر پہنچے ہیں۔ شاید ہر شخص کے لیے اپنے بچپن کی یاد ہی سنہری ہوتی ہے۔ جیسے ہم نے اپنے بچپن میں اشتیاق احمد کو پڑھا تو کوئی اور جاسوسی ناول نگار دل میں ویسی جگہ نہ بنا سکا۔ اسی طرح بڑے ادیبوں نے اپنے بچپن میں ابن صفی کو پڑھا ہو گا۔ ابن صفی یقیناً منفرد ہوں گے لیکن ہمیں تو جو لطف اشتیاق احمد کو پڑھنے میں آیا، وہ ابن صفی کو پڑھنے میں نہ آیا۔ جیسی با محاورہ اردو ان کے ہاں ملی، ویسی کہیں اور نہ ملی۔ مقدار میں بھی اشتیاق احمد کا پلڑا ہی بھاری نظر آتا ہے۔ انہوں نے آٹھ سو کے قریب ناول لکھے جب کہ ابن صفی نے دو سو پچاس ناول تصنیف کیے۔ لہذا ہمیں تو ادبی اور عددی اعتبار سے اشتیاق احمد ہی جاسوسی ناول نگاری کے امام نظر آتے ہیں۔
(آپ کو ہماری رائے سے اختلاف ہے تو اس کا اظہار کرنے میں کوئی قدغن نہیں، کمنٹس سیکشن اسی لیے بنایا گیا ہے)

12 thoughts on “کیا اشتیاق احمد ابن صفی سے بڑے ناول نگار تھے؟

  1. مظہر کلیم کے لکھے ناول پڑھے تو لگتا تھا اس سے بڑا لکھاری کوئی نہیں لیکن ابن صفی کو پڑھ کر واقعی احساس ہوا کہ اردو ادب کی کوئی حد نہیں،
    اشتیاق احمد کو پڑھا نہیں اس لئےوہ پھر سہی

    پسند کریں

  2. ابن صفی صاحب کے بارے میں اشتیاق احمد صاحب کا کہنا ہے کہ ابن صفی صاحب ہمارے استاد ہیں۔۔ گھر میں بجلی نہ ہوتی تو سٹریٹ لائیٹ کی روشنی میں ابن صفی صاحب کے ناول پڑھا کرتے تھے اشتیاق احمد صاحب۔۔۔ اور صرف ناول ہی نہیں پڑھتے تھے بلکہ ناول اتنے پسند تھے ان کو کہ ناول کے کردار و واقعات سے بھی بخوبی واقف تھے۔ ابن صفی صاحب نے کن حالات میں جاسوسی ادب اور اردو جاسوسی ادب کی کو پاکستان و ہندوستان میں متعارف کروایا اور اردو جاسوسی ادب کے بانی کا لقب بھی حاصل کیا۔۔۔ انہوں نے محنت کر کے کردار بنائے اور پھر کرداروں کو مقبول بھی کیا اور انکا خاص معیار بھی بنایا تو انکے ناولوں کی تعداد پھر بھی بہت زیادہ ہے جو انکی انتھک محنت کا نتیجہ ہے۔ ابن صفی صاحب اور اکرم الہ آبادی کے بعد تو اردو جاسوسی ادب کے مصنفین کو تو تیارشدہ مواد ملا تو ان کے ناولوں کی تعدادہزاروں میں تو ہونی تھی۔
    یاد رہے کہ ابن صفی صاحب کو چاہنے والے تقریباً تمام افراد اشتیاق احمد صاحب سے بھی لگاؤ رکھتے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ اشتیاق احمد صاحب کی ابن صفی صاحب سے محبت و عقیدت بھی تھی اور اشتیاق احمد صاحب نے اپنے کردار بھی اسی لیے بنائے۔ یہ تحریر ابن صفی صاحب کو اور اشتیاق احمد صاحب کو پڑھنے والوں کے درمیان نفرت پیدا کر سکتی ہے، کیونکہ اردو جاسوسی ادب کے حوالے سے ابن صفی صاحب اور اکرم الہ آبادی صاحب کو اردو جاسوسی ادب کا امام اور بانی کہا جاتا ہے اور یہاں شاگرد کو ہی اردو جاسوسی ادب کا امام بنا دیا ہے۔۔ یہ بات اگر کسی کے ساتھ بات چیت کے دوران کہہ دی جائے تو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا مگر اس طرح مضامین میں یا کالم کی صورت میں بیان کرنا زیب نہیں دیتا۔ آج بھی نوجوان نسل ابن صفی صاحب کو اسی ذوق و شوق سے پڑھتی ہے جس ذوق و شوق سے اس وقت پڑھا جاتا تھا۔

    Liked by 2 people

    • جی فہد صاحب۔ رائے دینے کا شکریہ۔ اس طالب علم کے ذہن میں سوال پیدا ہوا سو اٹھا دیا۔ امید ہے سوال کسی نفرت کو جنم نہیں دے گا۔ آپ کی رائے سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ ایک بار پھر شکریہ

      پسند کریں

  3. میرے ساتھ بھی لفظ بہ لفظ یہی معاملہ ہوا۔ بس فرق اتنا ہے کہ ابن صفی پر پندرہ روپے خرچ کرنے سے پہلے آن لائن عمران سے تعارف کرلیا۔ ایک دوست سے شکوہ کیا تو انہوں نے کہا کہ جس زبان نے خالص دودھ اور دیسی گھی کا ذائقہ نہ چکھا ہوا، اسے ملاوٹ والی چیزیں ہی زیادہ بھاتی ہیں۔

    Liked by 2 people

  4. اورمجھے تو ابن صفی، مظہر کلیم اور اشتیاق احمد کا اب آکر پتا لگا ہے کہ الگ الگ ہیں ،بچپن میں تو بس عمران سیریز ہوتی تھی، مصنف کا تو نام یاد ہی نہیں ، پھر تھوڑا بڑے ہوکر سسپنس میں بڑوں والی عمران سیریز پڑھی جو ابن صفی لکھتے تھے غالباً تو ان کے نام سے شناسائی ہوئی ، پھر خود ہی فرض کرلیا کہ بچپن والی کہانیاں بھی انہوں نے ہی لکھی ہونگی 😛

    Liked by 1 person

  5. آن لائن اگر آپ فریدی حمید عمران قاسم وغیرہ کے بارے میں معلومات لے کر پھر ان کرداروں کو پرھیں تو امید ہیکہ پسند آئیں گے۔۔۔ اشتیاق احمد صاحب کا آخری ناول ’’عمران کی واپسی‘‘ (جو ابن صفی صاحب کو خراج عقیدت پیش کیا گیا تھا) بھی کسی حد تک ابن صفی صاحب کے سٹائل جیسا لکھا گیا ہے۔۔۔

    پسند کریں

  6. محترم اشتیاق احمد کے ناولوں کے ہم بھی دیوانے رہے، 1985 سے لے کر 1995 تک انہیں خوب پڑھا، بعد میں غم روزگار میں ایسا پھنسے کہ پھر ناولوں کی طرف توجہ کم ہوگئی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاسوسی ناول نگاری میں اشتیاق احمد سے بڑھ کر اور کوئی نہیں ۔۔۔۔۔

    پسند کریں

تبصرہ کریں