محمد جنید دو کام کرتے ہیں۔ ایک تو جیو پر خبریں پڑھتے ہیں۔ اور جب خبریں نہیں پڑھ رہے ہوتے تو دوسروں پر تنقید کرتے ہیں۔ فلاں کیسے چلتا ہے، کیسے بولتا ہے، کیسے اٹھتا بیٹھتا ہے، کیسا دکھتا ہے، کیا پہنتا ہے؛ جنید کوئی نہ کوئی سقم یا عیب دریافت کر ہی لیتے ہیں۔ ویسے مہربان آدمی ہیں۔ دوسروں کے غموں میں شریک ہوتے ہیں۔ ہماری شادی پر بھی تشریف لائے تھے۔ اور ہمیں ایسا موقع دینے پر تاحال تیار نہیں۔ ہماری دوستی کا بار اپنے نازک کندھوں پر اٹھا رکھا ہے، اس لیے ہم بھی ان کی خامیاں نظر انداز کر کے انہیں عزیز مانتے ہیں۔ (واضح رہے، لفظ ‘بار’ کا استعمال ہم نے اپنی شخصیت کے لیے کیا ہے، جسامت کے لیے نہیں)
ہم کراچی گئے تو انہوں نے اپنے دفتر آنے کی دعوت دی۔ ملنے پہنچے تو معلوم ہوا دفتر والوں نے انہیں کرسی سے باندھ کر منہ پر ٹیپ چپکا رکھی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ محمد جنید بہت زیادہ بولتے ہیں، اور جو بولتے ہیں وہ تنقید پر مبنی ہوتا ہے۔ اور ساتھ ساتھ کمپیوٹر سافٹ ویئر سے بھی چھیڑ چھاڑ کر دیتے ہیں۔ لہذا دفتر والوں نے یہی حل سوچا ہے کہ خبریں پڑھوانے کے بعد ان کے منہ پر ٹیپ لگا کر کرسی سے باندھ دیا جائے۔
خیر ہماری منت سماجت پر ان کی بندشیں ختم کی گئیں۔ انہوں نے آزاد ہوتے ہی ہاتھ میں جھاڑو تھام لیا اور کہا، اسٹوڈیو کی صفائی ٹھیک نہیں۔ دس منٹ بعد دائیں کونے میں جمع کوڑا بائیں کونے میں سمیٹ دیا اور فاتحانہ انداز میں کہنے لگے، اسے کہتے ہیں صفائی۔
اسی دوران جیو کے وجیہ اینکر وجیہ ثانی بھی آن پہنچے۔ ایک مشہور بلاگر اور نام نہاد صحافی کو اپنے درمیان پا کر انہوں نے ہمارے ساتھ تصویر بنوانے کی خواہش ظاہر کی۔ ایک جانب جنید اور دوسری جانب وجیہ صاحب کھڑے ہوئے۔ دو اسمارٹ لوگوں کی خاطر ہم نے بھی سانس کھینچ کر پیٹ سمیٹ لیا اور تصویر بنوائی۔
اس کے بعد ہم شاہزیب خانزادہ صاحب اور ان کی ٹیم سے ملے۔ اور انہیں اچھا پروگرام کرنے کے لیے مفید ٹپس دیں۔
جیو والے تو اتنے متاثر ہوئے کہ ہمیں اینکر رکھنے کی ضد کرنے لگے۔ آزمائشی طور پر وہاں بٹھا بھی دیا جہاں کئی مایہ ناز اینکر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں۔
جیو والوں کی منت سماجت پر ہم دو سو روپے فی خبر نامہ کے عوض خبریں پڑھنے پر راضی ہو گئے۔ لیکن اتنی دیر میں تمام عملہ ہماری قابلیت اور لیاقت سے واقف ہو چکا تھا۔ جیو والوں نے حساب لگایا کہ ہمیں دو سو روپے دے کر خبریں پڑھوائی جائیں اور اس کے بعد عملے اور ناظرین کے لیے پیناڈول کا بندوبست بھی کیا جائے تو ایک بلیٹن دو کروڑ روپے کا پڑے گا۔ لہذا بہت اچھی سی چائے پلا کر ہمیں رخصت کر دیا گیا۔
جاتے جاتے ہم نے دیکھا، جنید کو دوبارہ کرسی سے باندھا جا رہا تھا۔