صحافت اور صلہ

نائٹ شفٹ میں ایک ہنگامہ ہوا کرتا۔ خبریں چلانے والے شعبے میں افرادی قوت صرف دو نفوس۔ وہی خبر نامہ ترتیب دیتے۔ سرخیاں نکالتے، فوٹیج کی تدوین کراتے، خبروں کی نوک پلک درست کرتے۔ کسی ایک کی چھٹی ہوتی تو دوسرا سبھی کام اکیلے کرتا۔ جو رات کے بلیٹن میں تازہ خبریں دینے کا شوقین ہوتا اسے سر کھجانے کی فرصت نہ ملتی۔ ایسے میں کوئی اہم خبر آ جاتی تو سانس لینے کی مہلت بھی نہ ملتی۔
جس روز کراچی میں رحمان ڈکیت پولیس مقابلے میں ہلاک کیا گیا، ہماری نائٹ شفٹ تھی۔ فلاں رپورٹر اسپتال میں موجود، فلاں لیاری میں، فلاں جگہ سے رحمان ڈکیت کی فوٹیج آ گئی، فلاں نئی معلومات آنے کو ہیں۔ فلاں آ چکی ہیں اور نشر ہونے کی منتظر ہیں۔۔۔ قیامت کی سی افرا تفری۔
ہم ٹی وی صحافیوں کو اسکرین پر چھوٹی چھوٹی ڈبیاں بنا کر ان میں مختلف مناظر بھرنے کا شوق ہوتا ہے۔ یہ دائیں ہاتھ جائے حادثہ کی فوٹیج، وہ بائیں ہاتھ اسپتال کے مناظر، کسی کونے میں اینکر ٹانک دو، کہیں سے رپورٹر جھانک رہا ہو۔۔۔ اسکرین پر یہ چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں کھولنا ہم تخلیق کاری سمجھتے ہیں۔
اس روز شدید مصروفیت کے عالم میں بھی اسکرین پر کچھ نیا کرنے کو ایسی ہی تخلیق کاری کی۔ غلطی سے رحمان ڈکیت ہلاک کی جگہ رحمان ڈکیت گرفتار لکھ گئے۔ اگلے روز جواب طلبی ہو گئی۔ ہم پریشان کہ کچھ نہ کرتے تو بہتر تھا، اپنی طرف سے ٹی وی اسکرین بہتر (یا تبدیل) کرنے کی کوشش کی اور پھنس گئے۔ غلطی اناتھ ہوتی ہے۔ یہ کوئی نہیں کہتا کہ میاں اس افرادی قوت کے ساتھ لمحہ بہ لمحہ کوریج کی اور چینل کے دیگر معاملات بھی بخوبی نبھائے۔ پکڑ ہوتی ہے تو تین لفظی ایک فقرے پر۔
تئیس مارچ کے روز صبح گیارہ بجے کے قریب دفتر پہنچے۔ شام چھ بجے کا خبر نامہ ہماری ذمہ داری تھا۔ بارہ بجے کا خبرنامہ تیار کرنے والوں نے حکم دیا پریڈ کے چند زاویوں پر رپورٹس لکھ دیں۔ ہم جت گئے۔ پریڈ میں میزائل کون سے پیش کیے گئے، ہیلی کاپٹر کس نسل کے تھے، ان کی کیا خصوصیات ہیں، کن طیاروں نے کون سے کرتب دکھائے۔۔۔ کرتے کرتے ڈھیر لگا دیا۔ یہاں بھی ایک غلطی کر گئے۔ کسی ایک جگہ پر رینک کی بھول چوک ہو گئی۔ توضیح طلب کر لی گئی۔
رپورٹ لکھنا ہماری نہیں رپورٹر کی ذمہ داری تھی، ہم نے تو ساتھیوں کی مدد کرنے کے چکر میں اضافی بار اپنے کندھے پر ڈالا۔ مذکورہ رپورٹ کے علاوہ کئی ایک غلطیوں سے پاک بھی تھیں۔۔۔ تھپکی کسی نے نہ دی۔
خیر قاعدے کی رو سے درست خبر دینا ہی ہماری ذمہ داری ہے۔ خطا اور سہو کی گنجائش نہیں۔ پکڑ ہو جائے تو شکایت کیسی۔ بس دکھ اس وقت ہوتا ہے کہ اچھے کام کی تو کوئی ستائش نہیں۔۔۔جب اپنی طرف سے کچھ بہتر کرتے ہوئے قصور سرزد ہو جائے تو فوراً گرفت۔ مثلاً شفٹ ختم ہونے کے بعد آپ جا رہے ہیں، کوئی اہم خبر آ گئی اور آپ دوسری شفٹ کے دوستوں کا ساتھ دینے کو رک گئے۔ ایسے میں کوئی غلطی کر بیٹھیں تو آپ کے ایثار کی کوئی وقعت نہ رہے گی۔ تب جی میں آتی ہے کہ لاپروائی ہی ٹھیک تھی۔ تب جان کھپائی، اب دل جلا ہے۔ مرہم کوئی نہ رکھے گا، غلطی کی وضاحت ہی مانگے گا۔
ایک سانحہ اور گزرا۔ توجہ ایک فوٹیج کی جانب دلائی گئی۔ بندوق بردار شخص شہریوں پر اینٹیں پھینک رہا ہے۔ خبریں فراہم کرنے کے ذمہ دار شعبے سے پوچھا یہ کیا معاملہ ہے؟ اس شخص نے بندوق اٹھا رکھی ہے تو اینٹیں کیوں پھینک رہا ہے۔۔۔ اس کی حرکات نے کوئی نقصان کیا۔۔۔ تھوڑی چھان پھٹک کر دیجیے تو چلائے دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا آپ کی مطلوبہ معلومات منگوا دی جائیں گی۔ پھر ہم دیگر کاموں میں مشغول ہو گئے انہوں نے بھی رسید نہ دی۔
اگلے روز وہی فوٹیج دوسرے چینل پر چلتے دیکھی تو ساتھیوں کو بتایا ۔۔۔ ارے ہمارے پاس بھی ہے۔ بس ہماری جواب دہی کی گئی۔۔۔ کہا گیا آپ خبر کی اہمیت کو جانچ نہ پائے، ادارتی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ پوچھا خبر کے اجزائے ترکیبی (کیا، کب، کہاں، کیوں، کیسے) پورے کرنا بھی تو ہماری ادارتی ذمہ داری تھی ۔۔۔ جواب ملا فوٹیج کو ایسی اہمیت ملنا چاہیے تھی گویا آپ کے پڑوس میں دھماکا ہو گیا ہو۔
قصور وار ٹھہرا کر بطور سزا دو دنوں کے لیے سولہ سولہ گھنٹے ڈیوٹی دینے کا پابند بنایا گیا۔ خبری فیصلہ سازی پر ہزار الفاظ کا تحقیقی مضمون لکھنا بھی سزا کا حصہ مقرر ہوا۔ مضمون کی تحقیق میں دلچسپ نقطہ ہاتھ آیا۔ خبری فیصلہ سازی کا کلیہ کوئی نہیں، متعدد عناصر ہیں۔ تاہم اچھا صحافتی فیصلہ وہی کہلائے گا جو ادارے کے سربراہ کو پسند آئے گا۔
ایک ادارے کے ساتھ نو برس کی رفاقت کے بعد ہمیں زعم تھا کہ کہیں غلطی کر بھی بیٹھے تو پاس رکھا جائے گا۔ انا کے اسی غبارے میں بیٹھ کر اونچا اڑنے لگے تھے، دھڑام سے نیچے آ رہے۔ میری سادہ والدہ دکھ سے پوچھنے لگیں، ہائے انہیں احساس نہیں روزے کی حالت میں دگنی ڈیوٹی کتنی مشکل ہو گی۔ انہیں کیا بتاؤں کہ شاہ کسی ایک فاقے دار کا احساس کرنے لگے تو سلطنت کا کاروبار کیسے چلے۔
سنا ہے احسان کر کے جتانا ارزل انسان کا کام ہے۔ ہمیں کون سا رفعتوں کا دعویٰ ہے۔ پھر دگنی ڈیوٹی کی سزا دینے والوں کو گنوائیں کیا۔۔۔ کہ ہمیشہ ڈیوٹی کے اوقات سے زیادہ ہی ٹھہرے ہیں۔ اور ایسا کسی کے کہنے پر نہیں کیا۔ فقط احساس۔
جس غلطی کی سزا پائی ہے وہ بھی اپنی ڈیوٹی کے اوقات کے بعد سرزد ہوئی۔
باز پرس تو ہوتی رہتی تھی، سزا کی نوبت پہلی بار ہی آئی۔ پھر کیا یہی وجہ ہے کہ ضبط کے بندھن ٹوٹتے ہیں۔ اکھیوں کو کیوں معلوم نہیں ہوتا کہ قاعدے کی رو سے ہمیں غلطی کی اجازت نہیں۔ جنہوں نے سزا دی ہے انہوں نے ہی بارہا جاہ و منصب سے بھی نوازا ہے۔ تو جو باپ یوں انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتا ہے وہی پہلی بار تھپڑ مار دے تو گلے میں رڑک سی کیوں آ جاتی ہے۔ یہ امید کیوں جاگتی ہے کہ ابھی بانہیں پھیلا کر گلے لگائے گا اور گال تھپک کر کہے گا، آئندہ ایسا نہ کرنا۔ ہر بار ای میل چیک کرتے ہوئے آس کیوں بندھتی ہے کہ سزا سے معافی کا اعلان ہو گا۔
اور ہم کیوں اس آس اور امید سے بندھے رہنا چاہتے ہیں؟ ایسے غیرت مند ہوتے تو اپنی راہ لے لیتے۔ ایسے ہنر مند ہوتے تو کسی اور ڈال پر جا بیٹھتے۔ پھر کیا وقت کا انتظار کریں جو زخم مندمل کر دے؟ یا اس صحافت کو ہی خیرباد کہہ دیں جہاں صلے کی توقع عبث ہے؟

4 thoughts on “صحافت اور صلہ

  1. جیسی کیفیت آپ کی ہے ویسی ہی کیفیت ادھر بھی ہے ، ابھی بھی رات ڈیوٹی میں ہوں ، دیدہ گاڑے ، خبروں پر نظر جمائے بیٹھا ہوں ۔ ایک دن مجھ سے بھی ایک غلطی ہوئی وہ یہ کہ یوپی میں سن دو ہزار سترہ انتخابات کی تیاری کو دو ہزار سات لکھ دیا ، لو بھئی طلبی آ گئی ۔ ایک دن تو غضب ہو گیا آئی ایس نے کہیں دھماکہ کیا تھا جلدی اور بریکنگ کے چکر میں لکھ گیا آئی ایس آئی نے دھماکہ کی ذمہ داری کی قبول اس دن بھی طلبی ہوئی دو دن کے لئے سسپنڈ کئے گئے ۔ کبھی کبھی تو معمولی لفظوں کے ہیر پھیر سے کچھ کا کچھ مطلب نکل جاتا ہے ، اس وقت سوچنے کا موقع نہیں ہوتا ۔ شروع شروع میں تو تخلیقیت اور خوبصورت سرخی کے چکر میں اکثر غلطیاں ہو جایا کرتی تھیں مگر پھر رفتہ رفتہ اس پر قابو پایا اور بات یہی سمجھ میں آئی کہ جتنا آسان اور چھوٹا جملہ ہو گا غلطیاں نہیں ہو نگی ۔

    Liked by 1 person

تبصرہ کریں