پی ٹی وی کے لیے لکھنا

یادوں کی پوٹلی قسط 1

یونیورسٹی میں شور مچا کہ پی ٹی وی کے کوئی پروڈیوسر آئے ہیں۔ نام منصور ہے، انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق پروگرام بنا رہے ہیں۔ جو کوئی تجاویز وغیرہ دینا چاہے وہ آ کر مل لے۔
یہ بات سن 2000 کے آخر، یا پھر 2001 کے شروع کی ہے۔ میں ان دنوں نسٹ (نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی) سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تعلیم حاصل کررہا تھا۔
تب تک میں ڈرامہ الفا ، براوو، چارلی دیکھ کرجی میں یہ بھی ٹھان چکا تھا کہ اس ڈرامے کے ہدایت کار شعیب منصور کی طرح، مجھے بھی ہدایت کاری کے شعبے میں ہی آنا ہے۔ نسٹ کے شعبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں تو داخلہ صرف اس لیے لیا تھا کہ معلوم ہی نہ تھا ہدایت کاری کی تعلیم کہاں سے ملتی ہے۔
یہ وہ دور تھا کہ گوگل کا نام بھی کوئی نہ جانتا تھا۔ سرچ کےلیے یاہو یا پھر آلٹا وسٹا نامی سرچ انجن استعمال کیے جاتے۔ ان سرچ انجنز پر بھی کسی پاکستانی شخصیت کے بارے میں کوئی معلومات نہ ملتیں۔ یعنی میں شعیب منصور کے صرف نام اور کام سے واقف تھا، ان کے چہرے کی پہچان نہ تھی۔
جب یونیورسٹی میں منصور صاحب کی آمد کا علم ہوا تو ان سے جا کر پوچھا، کیا آپ شعیب منصور ہیں؟
جواب میں مسکراتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ شعیب منصور نہیں، بلکہ راجہ منصور ناصر ہیں۔
میں نے پوچھا تھا، کیا آپ میری شعیب منصور سے ملاقات کرا سکتے ہیں؟ اب ٹھیک سے یاد نہیں کہ انہوں نے حامی بھری تھی ، انکار کیا تھا یا کوئی ملی جلی بات کی تھی۔
میں نے راجہ منصور ناصر صاحب کا ای میل ایڈریس لے لیا اور میرا ان سے رابطہ ہونے لگا۔ یہ وہ زمانہ ہے جب موبائل فونز طالب علموں کی دسترس میں نہیں آئے تھے۔ ای میل کےلیے بھی یونیورسٹی لیب میں موجود کمپیوٹر استعمال کیے جاتے،یا پھر انٹرنیٹ کیفے کا رخ کیا جاتا۔
راجہ منصور ناصر صاحب نے پی ٹی وی اسلام آباد سے انفارمیشن ٹیکنالوجی پر ایک پروگرام شروع کیا، جس کا نام تھا سائبر ورلڈ ۔ یا شاید میں بھولتا ہوں، پروگرام کا نام آئی ٹی آئی تھا(آئی ٹی انفارمیشن ٹیکنالوجی والا، اور پھر آئی آنکھ والا۔ IT Eye)۔یا پہلے اس کا نام سائبر ورلڈ تھا اور بعد میں بدل کر آئی ٹی آئی رکھ دیاگیا۔ 22سال گزر چکےہیں، سرسری سی باتیں ہی یاد ہیں۔
یہ آدھے گھنٹے کا ہفتہ وار پروگرام تھا۔ میری خواہش پر مجھے اس کے کچھ حصوں (سیگمنٹس) کا اسکرپٹ لکھنے کی ذمہ داری دی گئی۔
اس پروگرام کے توسط سے میری پی ٹی وی تک رسائی ہوئی۔ راجہ منصور ناصر صاحب سے ملنے چلا جاتا۔ ان کے کمرے میں دو اور پروڈیوسرز کی میزیں بھی تھیں۔ان کی آپس کی گفتگو سے بھی مجھ جیسے کم علم کو بہت کچھ سیکھنے کو ملتا۔ کمرے کی کھڑکی سے مارگلہ کی پہاڑیاں نظر آتیں۔ اگر بھولتا نہیں ہوں تو اس وقت پی ٹی وی اسلام آباد کی کینٹین کی چائے اور پکوڑوں کا شہرہ تھا۔ انہی سے میری بھی تواضع کی جاتی۔ اپنی اس پذیرائی پر خوشی سے دیوانہ ہوا پھرتا۔
راجہ منصور صاحب جب پروگرام کی ریکارڈنگ کرتے تو درخواست کر کےمیں بھی ہمراہ ہو جاتا۔ وہ پروگرام راولپنڈی اسلام آباد کی یونیورسٹیوں میں ، آئی ٹی کےشعبہ جات میں جا کر ریکارڈ کیا جاتا۔پس منظر میں طلبہ کمپیوٹرز پر کام کررہے ہوتے، سامنے اینکر اپنا اسکرپٹ پڑھتیں۔ ایک بار دل چسپ واقعہ ہوا۔ وہ یہ کہ اینکر کیمرے کو دیکھ کر اپنے جملے بول رہی تھیں۔ پیچھے طلبہ کمپیوٹرزپر بیٹھے کام کررہے تھے۔ ایک طالب علم کے جی میں جانے کیا آئی، وہ مڑ کر کیمرے کو دیکھنے لگا، اور پھر دیکھتا ہی گیا۔ کیمرہ مین اس وقت یہ بات نوٹ ہی نہ کر سکے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ بھی تھی، کہ ان دنوں جو کیمرے آؤٹ ڈور ریکارڈنگ کےلیے استعمال ہوتے تھے، ان میں سارا منظر صرف ایک ننھے سے ویو فائنڈر کے ذریعے ہی دیکھا جا سکتا تھا۔ آؤٹ ڈور کیمروں سے منسلک ایل سی ڈی ڈسپلے کا زمانہ چند سال بعد آنا تھا۔ تو ویو فائنڈر سے دیکھتے ہوئے کیمرہ مین کا دھیان منظر کے مرکزی کردار (یعنی اینکر) پر ہی رہا۔ وہ لینس کو گھورتے طالب علم کی طرف توجہ ہی نہ کر سکا۔ نشان دہی اس وقت ہوئی جب پروگرام کی ایڈیٹنگ ہو رہی تھی۔ حل کےلیے کیمرے کو گھورتے طالب علم کے اوپر ایک گرافکس کارڈ لگایا گیا جس پر پروگرام کا نام درج تھا۔ (جو لوگ گرافکس کارڈ کی اصطلاح سے ناواقف ہیں وہ یوں سمجھ لیں کہ کیمرے کو گھورتے طالب علم کو ایک کاغذ سے چھپا دیا گیا اور کاغذ پر پروگرام کا نام لکھ دیا گیا۔)

سلسلے کی تمام اقساط اس لنک پر موجود ہیں https://nokejoke.com/category/%db%8c%d8%a7%d8%af%d9%88%da%ba-%da%a9%db%8c-%d9%be%d9%88%d9%b9%d9%84%db%8c/

تبصرہ کریں