عمران خان کو تقریر میں کیا کہنا چاہیے تھا؟

جون 2020 کا آخری ہفتہ حکومت کے لیے ہنگامہ خیز رہا، پہلے وفاقی وزیر نے اپنی حکومت پر تنقید کی، پھر وزیراعظم نے قومی اسمبلی سے خطاب میں اسامہ بن لادن کو شہید کہہ دیا. عالمی میڈیا نے باقی تقریر چھوڑ کر، صرف اسے اپنی شہہ سرخیوں میں جگہ دی۔
اس پر سینیئر صحافی اور روزنامہ ڈان اسلام آباد کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر فہد حسین نے ایک کالم لکھا، جس کا عنوان تھا ”بادشاہ کی تقریر
فہد حسین نے تجزیہ کیا کہ عمران خان کو اپنی تقریر میں کیا کہنا چاہیے تھا، اور وہ ایسا کیوں نہ کہہ سکے۔
یہ کالم انگریزی میں ہے، لیکن اتنا اہم ہے کہ اردو سمجھنے والوں کے لیے بھی اس کا پڑھنا ضروری ہے۔
مفاد عامہ کے لیے اس کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے۔
بادشاہ کی تقریر
جو کچھ وزیر اعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں کہا، شاید وہ اس سے کم اہم ہے، جو تقریر نے ان کے بارے میں کہا۔
جمعرات کے روز وہ قومی اسمبلی کے اس ایوان میں کھڑے ہوئے، جس کے وہ سربراہ ہیں – تقریبا ایک اجنبی کی طرح، کیوں کہ وہ کم کم ہی وہاں آتے ہیں۔ اور ایک طویل تقریر کی جس سے کوئی بھی متاثر نہ ہوا۔ یہ حیران کن ہے۔ عمران خان وہ شخص ہیں جنہوں نے زور تقریر پر اقتدار حاصل کیا اور ایسا بیانیہ تشکیل دیا جس میں دیگر سب لوگ غرق ہو گئے۔ ان کے پاس موجود ہتھیاروں میں، سب سے خوف ناک ہتھیار ان کی گفتگو ہی تھی۔
اس کے باوجود، جمعرات کے روز یہی ہتھیار ناکام ہو گیا۔ کیوں؟ ناکامی ان کے الفاظ کے چناؤ یا انداز بیاں میں نہیں، بلکہ اس میں ہے کہ وہ جانتے ہی نہیں کہنا کیا ہے۔
انہوں نے اپنی تقریر میں یہ باتیں کیں: کورونا پر ہماری پالیسی میں کوئی ابہام نہیں اور ہمارے پاس بہت زیادہ اعداد و شمار ہیں؛ میں نے دنیا کو خبر دار کر دیا تھا کہ بھارتی وزیراعظم مودی فاشسٹ ہے؛ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکیوں نے ہماری بے عزتی کی اور اسامہ بن لادن کو ‘شہید’ کر دیا؛ میں احتساب اور میرٹ کی عمل داری چاہتا ہوں اور اپوزیشن کے خلاف کوئی ذاتی عناد نہیں؛ ہمیں کمزور معیشت ملی؛ ہمیں ہر صورت مدینہ کی ریاست بنانی ہے؛ ہم سارے پاکستان میں غریبوں کے لیے پناہ گاہیں تعمیر کریں گے؛ گزشتہ حکومتوں میں کرپشن کی وجہ سے پیسہ باہر چلا گیا؛ اور ہم اگلے سال سے یکساں نظام تعلیم لا رہے ہیں۔
اس تقریر کی ممکنہ وجوہات یہ ہو سکتی ہیں: وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری کا اعتراف کہ حکومت ناکام ہو رہی ہے؛ بے رحمانہ تنقید کہ وزیراعظم کی کورونا پالیسی مکمل تباہی ہے؛ یہ تاثر کہ دو سال کے بعد بھی تحریک انصاف کے پاس کارکردگی کی مد میں دکھانے کو کچھ نہیں؛ بڑھتی ہوئی آوازیں کہ حکومت امیدوں پر پورا اترنے میں ناکام رہی؛ اتحادیوں کی علیحدگی اور حکمران جماعت کے اپنے ہی اراکین کی تنقید سے سیاسی کمزوری کا تاثر؛ اور ان ہاؤس تبدیلی کی مستقل سرگوشیاں اور افواہیں۔
بڑھتے دباؤ پر کسی نے مشورہ دیا ہو گا کہ وزیراعظم عمران خان پارلیمنٹ سے خطاب کریں اور ایسے لیڈر کا تاثر پیش کریں، معاملات جس کے قابو میں ہیں۔ اس عاقلانہ مشورے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیراعظم کو تیاری بھِی کرائی جاتی کہ کیا کہنا ہے اور کیا نہیں کہنا۔
یہ بات تفصیل طلب ہے۔ جب سے عمران خان نے وزارت عظمیٰ سنبھالی ہے، لگ رہا ہے کہ انہیں کچھ امور انجام دینے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ اس پر حیرت نہیں ہونی چاہیے، کیوں کہ یہ کام کرنے والا کوئی بھی شخص ذمہ داریوں کے بوجھ سے مغلوب ہو سکتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ادارہ جاتی مدد فراہم کی جانی چاہیے۔ ایک بالغ جمہوریت میں وزیراعظم (اور صدر) کے دفاتر میں سیاسی اور سرکاری معاونین ہوتے ہیں جن کا کام ہی یہ ہوتا ہے کہ اپنے افسر کو تمام معاملات سے آگاہ رکھیں۔ یہ عملے کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ بولنے کے نکات فراہم کریں، بات کہنے کا ڈھنگ سجھائیں، اور وزیراعظم کے لیے ایک سمت طے کریں تاکہ اس کی گفتگو، انداز گفتگو اور مقام گفتگو اس دائرے سے باہر نہ جائے۔ یہ سب ہونے کے لیے اس سے پہلے بھی کچھ ہونا ضروری ہے۔
وہ عملہ سیاسی اور ابلاغی امور کا ماہر ہو تاکہ وزیراعظم کی رہنمائی کر سکے۔ اور وزیراعظم کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ سیکھنا چاہتا ہو۔ پاکستان میں عموماً ہم نے دونوں امور پر مسائل کا سامنا کیا ہے۔ عمران خان کا معاملہ شدید تو ہے لیکن منفرد نہیں۔
شدید اس لیے کہ وزیراعظم کے دفتر میں ایسا عملہ موجود نہیں جو اس درجے کے سیاسی اور ابلاغی امور کا لائحہ عمل طے کر سکے۔ وزیراعظم کے پاس سینیئر ساتھی موجود ہیں، جیسے کہ وزیر منصوبہ بندی اسد عمر اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، لیکن انہیں اپنی وزارتیں بھی تو چلانی ہیں۔ ان کے ذاتی عملے کی سربراہی کے لیے ایسا فرد درکار ہے، ،جو تجربہ کار ہو، سیاسی امور کو سمجھتا ہو، وفادار ہو اور جس کی ذمہ داری صرف عمران خان کو سنبھالنا ہو۔ ایسا کوئی فرد وزیراعظم کے عملے کی سربراہی کر رہا ہوتا، اور اس نے عملے میں ایسے ماہرین کو بھرتی کیا ہوتا جو وزیراعظم کو ہر حوالے سے تیار رکھِیں، تو وزیراعظم نے جمعرات کو اپنی تقریر میں:
یہ راگ نہ الاپا ہوتا کہ 2018 میں معیشت کا کتنا برا حال تھا؛ خارجہ پالیسی میں ‘خیالی’ کامیابی کی بات نہ کی ہوتی؛ بن لادن کو ‘شہید’ نہ کہا ہوتا؛ احتساب اور میرٹ کا حوالہ نہ دیا ہوتا کیوں کہ یہ دونوں چیزیں سیاست کی نذر ہو چکیں؛ پناہ گاہوں جیسے منصوبوں پر وقت صرف نہ کیا ہوتا؛ اور تاریخ پر لیکچر نہ دیا ہوتا۔
اس کے بجائے:
انہوں نے مرکزی امور پر توجہ کی ہوتی؛ بتایا ہوتا کہ اپنی مدت میں وہ کون سی اصلاحات نافذ کریں گے؛ منصوبوں کی مکمل تفصیل بتائی ہوتی اور یہ بھی تفصیل سے بتایا ہوتا کہ فلاں منصوبے سے کیا حاصل ہو گا اور لوگوں کی زندگیوں پر کیا اثر ڈالے گا؛ کورونا پر قابو پانے کےلیے تین سے چھ ماہ کا واضح منصوبہ پیش کیا ہوتا اور یہ بھی کہ کورونا کے بعد صحت کی پالیسی سے کیا تنائج حاصل کیے جائیں گے؛ اور ایک ایسا منصوبہ پیش کیا ہوتا جس میں اپوزیشن کی شکایات کم اور لوگوں کی زندگیاں بہتر کرنے کے اہداف زیادہ ہوتے۔
لیکن اس سے بھی بڑھ کر، یہ کہتے اور تبدیلی کی نشان دہی کرتے کہ وہ ماضی کا بوجھ اتار پھینکنے کو تیار ہیں اور مستقبل کے لیے سب کی شمولیت سے ترقی پسند، منجھی ہوئی قیادت فراہم کریں گے۔ آج جس کا پاکستان نہ صرف ضرورت مند ہے بلکہ حق دار بھی ہے۔ یہ وہ تقریر تھی جو عمران خان کو کرنی چاہیے تھی۔
تبدیلی خود سے ہی شروع ہوتی ہے۔

تبصرہ کریں