ٹیلی وژن چینل نے ہم ملازمین کی تربیت کا آغاز کیا تو افتتاحی تقریب ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں رکھی۔ ہم پانچ ستارہ ہوٹلوں سے قطعاً نابلد تو نہیں، البتہ یہ شناسائی کچھ محدود سی ہے۔ اب آپ سے کیا چھپانا، جب ہم کسی پانچ ستارہ ہوٹل میں جاتے ہیں، مرعوب سے ہو جاتے ہیں۔ دروازے پر کھڑا دربان بھی کسی سلطنت کا بادشاہ معلوم ہوتا ہے۔ خواہ مخواہ اس کے آگے کورنش بجا لانے کا جی چاہتا ہے۔ جب وہ آگے بڑھ کر ہمارے لیے دروازہ کھولتا ہے تو ہم شرمسار سے ہوجاتے ہیں، گویا کوئی گستاخی ہوگئی ہو۔ اکثر بوکھلاہٹ میں انہیں عالم پناہ کہہ کر مخاطب کر جاتے ہیں۔اس روز بھی یہی ہوا۔ ہم پانچ ستارہ ہوٹل میں داخلے، پارکنگ اور تلاشی کے مراحل سے گزر کر یخ بستہ عمارت کے اندر پہنچے تو گلا خشک تھا ور ماتھے پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے۔ڈرتے ڈرتے دربان سے ہی واش روم کا پوچھا اور منہ دھونے جا پہنچے۔ یہاں ایک اور مشکل کا سامنا تھا۔ نلکے تو موجود تھے لیکن پانی کھولنے والی ٹوٹنی نہیں تھی۔ پہلے پریشان ہوئے، پھر حیران۔ خیال آیا ہوٹل والے بھی ہم سے مذاق کے موڈ میں ہیں۔ یا شاید کوئی خفیہ بٹن دبانے سے پانی آتا ہو؟ نلکے کو ٹٹولا، واش بیسن کے نیچے بھی ہاتھ مارا۔ شش و پنج میں ہاتھ پاؤں مار رہے تھے کہ یکایک پانی بہنے لگا۔ معلوم ہوا کہ نہ ٹوٹنی ہے نہ بٹن، بس نلکے کے نیچے ہاتھ رکھیے، پانی خود بخود آتا ہے۔
اس مرحلے سے گزرے تو کھانا ہمارا منتظر تھا۔ ہم اور کھانا "یک نان دو قالب” ہو گئے۔کبھی چنگیز خان نے کھوپڑیوں کے مینار بنائے ہوں گے، ہم پلیٹ میں بوٹیوں اور روٹیوں کے مینار کھڑے کرتے گئے۔نمکین کے بعد میٹھے کی باری آئی تو یہاں بھی قسم قسم کی نعمتیں موجود تھیں۔ کہیں کیک مٹھاس بکھیر رہے تھے تو کہیں فیرنی اور کسٹرڈ جی کو للچا رہے تھے۔ ان سب سے بھی انصاف ہوا ۔ اب نظر پڑی ایک عجیب و غریب ڈش پر۔ ڈش کیا تھی کوئی ملٹی اسٹوری عمارت معلوم ہو رہی تھی۔ ہم قریب پڑا چمٹا اٹھا کر اسے کھانے کو آگے بڑھے ہی تھےکہ ویٹر ہمارے راستے میں آ گیا۔ ہم نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا تو وہ بولا
"سر، یہ ڈیکوریشن پیس ہے۔”
آپ کو بتایا تھا نہ، پانچ ستارہ ہوٹلوں سے ہماری شناسائی محدود سی ہے۔