عامر لیاقت سے پانچ سوال

عامر لیاقت صاحب۔ سنتا ہوں کہ رمضان نشریات کے بعد، اب آپ جیو پر مارننگ شو بھی "برپا” کرنے جا رہے ہیں۔یہ خبر سنی تو مجھے ایکسپریس والوں پر ترس بھی آیا، اور پیار بھی۔ جب آپ کچھ دنوں کے لیے وہاں سدھارے تھے، تو انہوں نے کتنی خوشیاں منائی تھیں۔آپ کو اپنا صدر ہی مقرر کر لیا تھا۔
آپ کی آمد کے روز بڑے سائز کا خیر مقدمی اشتہار شائع کیا گیا (اور جب تک آپ رہے، آپ کی محمودہ سلطانہ فاؤنڈیشن کے اشتہار بھی شائع ہوتے رہے)۔ایکسپریس نیوز نے رات نو بجے کے خبر نامے میں آپ کی آمد کو بریکنگ نیوزکے طور پر پیش کیا، اور آپ کا براہ راست انٹرویو لیا گیا(یہ انٹرویو آپ تحریرکے آخرمیں دیکھ سکتےہیں)۔
اس انٹرویو میں آپ نے عقل کے جو موتی بکھیرے، میں ابھی تک انہیں سمجھنے سے قاصر ہوں۔ جیو پر مارننگ شو شروع کرنے سے پہلے مندرجہ ذیل دانائی بھری باتوں کی وضاحت ضرور فرما  دیجیے گا۔
نمبر ایک۔
آپ نے فرمایا،”انسانی زندگی تبدیلی اور تغیر کا نام ہے، جمے رہنے کو زندگی نہیں تماشا کہتے ہیں۔”
یہ "جمود” اور "تماشے” کا آپس میں کیا تعلق ہے، اور کیوں ہے؟
نمبردو۔
جیو چھوڑنے، اور ایکسپریس جانےکا جواز دیتے ہوئے آپ نے کہا،”فیصلے جذبات نہیں بلکہ جذبے کی بنیاد پر کیے جانے چاہییں۔” جیو سے دوبارہ وابستہ ہونے کا فیصلہ آپ نے کس جذبے کی بنیاد پر کیا؟
نمبرتین۔
ان دنوں جیو زیر عتاب تھا۔ آپ کو اندازہ تھا کہ ایسے وقت میں چینل چھوڑنے پر طعنہ ملے کاکہ برے وقت میں چھوڑ دیا۔لہذا آپ نے پہلے ہی کہہ دیا، "یہ جو لوگ کہتے ہیں برے وقت میں چینل چھوڑ دیا۔۔۔یاد رکھیں کوئی وقت برا وقت نہیں ہوتا،بلکہ شامت اعمال کی وجہ سے جو وقت گزارنا مشکل ہو جاتا ہے ہم اسے برے وقت کا نام دے دیتے ہیں۔”اور سب کے اچھے دن آئیں گے، سب اپنی غلطیوں سے سیکھیں گے۔
توآپ کی تعریف کے مطابق، کیا اب جیو کے برے دن ختم ہو گئے ہیں؟اور کیا اس نے اپنی غلطیوں سے سیکھ لیاہے؟
نمبر چار۔
ایکسپریس پر آپ رمضان نشریات کرنے جا رہے تھے۔ آپ نے کہا ، "میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں آنے والے دنوں اور پر نور راتوں میں (رمضان کا ذکر ہو رہاہے) آپ سے(انہوں نے وضاحت نہیں کی کہ بات اشتہاری کمپنیوں کی کر رہے تھے یا ناظرین کی) علیحدہ نہیں رہ سکتا، علیحدہ رہنا ہی نہیں چاہتا۔”
کیا اب آپ معمول کے دنوں میں بھی "ان” سے علیحدہ نہیں رہ سکتے؟ اور اگر "ان ” سے علیحدہ نہیں رہنا، تو اس بار کوئی معقول وجہ ہی بتا دیں۔
نمبر پانچ۔
آپ نے کہا چینل ملک ،مذہب ،عقیدے یا نظریات نہیں ہوتے جو چھوڑے نہ جا سکیں۔ بالکل بجا فرمایا۔ پھر آپ نے کہا چینل ماں بھی نہیں ہوتی جو بدلی نہیں جا سکتی۔ معاف کیجیے گا، مجھے بات عامیانہ لگی، لیکن اس کے درست ہونے میں کوئی شک نہیں۔ پھر آپ نے کہا چینل کوئی بیوی نہیں ہے جو بیک وقت دو یا چار رکھی جا سکیں۔ یہ بات بھی ٹھیک، کہ بندہ ایک وقت میں ایک ہی چینل سے وابستہ ہو سکتا ہے۔ لیکن بعد میں آپ نے جو کہا، وہ تو مجھ ناچیز کی سمجھ بھی بالکل ہی نہیں آیا۔
آپ کا جملہ تھا، ایک وقت میں ایک ہی چینل ہوسکتا ہےاور یہ ایک ایسی جگہ پر ہو سکتا ہے جہاں ہم جیسے لوگ دولت کی خوشبو پر مست ہو کر رقص نہیں کرتےبلکہ اپنے عکس کی گہرائیوں کی بدولت تواریخ رقم کرتے ہیں۔
عامر صاحب! خدارا، پہلے تو مجھے اس فقرے کا مطلب سمجھائیں۔پھر بتائیں عکس کی گہرائی سے آپ کا مطلب کیا تھا۔ اور آخر میں یہ بتائیں، کہ اپنے عکس کی گہرائی سے آپ نے کون سی "تواریخ” رقم کی؟
جواب کا منتظر
خیراندیش

 

عامرلیاقت کانادرروزگارانٹرویو ملاحظہ فرمائیں

2 thoughts on “عامر لیاقت سے پانچ سوال

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s