دروازے پر کھڑی گاڑی

اٹھ کر ناشتہ کرنے کے بعد گیراج میں کھڑی گاڑی، موٹرسائیکل اور سائیکل پر کپڑا مارنے کی عادت ہے۔ اس صبح دیکھا کہ دروازے کے باہر کوئی نامعقول، گاڑی یوں کھڑی کر گیا ہے کہ اپنی گاڑی نکالنا چاہیں تو ممکن نہ ہو گا۔
ہم گاڑی پر دفتر نہیں جاتے، پھر بھی اس صورتحال پر جھنجھلائے۔ یعنی کسی کو کیا حق ہمارے دروازے پر گاڑی کھڑی کرنے کا۔ اب یہ بھی معلوم نہیں کہ گاڑی کا مالک پڑوس کے کس گھر میں ہے۔ باہر نکل کر اندازہ لگانے کی کوششش کی، لیکن صبح کے چھ بجے آدم نہ آدم زاد۔ جھنجھلاہٹ بتدریج غصے میں ڈھلنے لگی۔ یاد آیا کچھ ہی دن پہلے ایک مہمان کو تڑکے اٹھ کر چھوڑنے جانا پڑا تھا۔ ایسا ہی کوئی معاملہ ہو، یا خدانخواستہ کوئی افتاد آن پڑے اور کوئی لاپرواہ شخص ہمارے گھر کے آگے اپنی گاڑی کھڑی کر جائے تو کیا بنے گا۔ ممکنات کو سوچتے سوچتے پیچ و تاب بڑھتی چلی گئی۔ بس نہیں چلتا تھا کہ گاڑی کا مالک سامنے آئے اور اسے خوب صلواتیں سنائیں۔
یہ بھی جی میں آئی کہ پڑوس کے تمام گھروں میں گھنٹیاں بجا کر گاڑی کا مالک ڈھونڈا جائے، اور پھر اسے نشان عبرت بنایا جائے۔ طبیعت کچھ کچھ تشدد کی جانب مائل ہونے لگی۔ کسی تیز دھار آلے سے گاڑی پر خراشیں ڈالنے سے لے کر ونڈ اسکرین توڑنے تک پر غور کیا۔
بیگم کو بتایا تو وہ الٹا برہم ہونے لگیں، "یہ سب آپ ہی کے ڈھیل دینے کا نتیجہ ہے۔” ہم سٹپٹائے، ایک سال میں گھر کے آگے گاڑی کھڑی ہونے کا یہ دوسرا واقعہ تھا، اس میں ہماری ڈھیل کا کیا دخل؟ پچھلی بار دروازے کے آگے کھڑی گاڑی کا مالک آیا، ہم نے کھڑکی سے دیکھا اور اس کی خبر لینے باہر کو دوڑے۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ وہ خاتون تھیں۔ اس لیے الجھے بغیر ہی واپس آ گئے تھے۔
بیگم کی ڈانٹ ڈپٹ کے بعد تو گاڑی والے کے خلاف غصہ مزید بڑھ گیا۔ گاڑی اور مالک دونوں کی دنیاوعاقبت خراب ہونے کی دعائیں مانگنے لگے۔ سوچا اب ہم بھی گاڑی دوسروں کی طرح باہر ہی کھڑی کیا کریں گے۔
دفعتاً ایک خیال کوندے کی طرح ذہن میں لپکا۔ سردست گاڑی کے دروازے پر موجود رہنے سے ہمیں کوئی نقصان نہیں۔ ویسے بھی ہم دفتر گاڑی پر نہیں جاتے۔ ہماری جو بھی پریشانی ہے وہ کسی ممکنہ واقعے کے پیش نظر ہے۔ ہم صرف یہ سوچ کر پریشان ہیں کہ اگر کسی ناگہانی ضرورت کے تحت گاڑی نکالنا پڑی تو دروازے پر کھڑی گاڑی رکاوٹ بنے گی۔ ہم اس گھڑی سے پریشان ہیں جو ابھی آئی ہی نہیں۔ حقیقت میں کوئی پریشانی نہیں، مفروضے نے ہمیں فکر مند کر رکھا ہے۔
یہ سوچ آتے ہی اضطراب ختم ہو گیا۔ لیکن گاڑی والے کو پیغام پہنچانا بھی ضروری تھا۔ ایک کاغذ پر لکھا، "کسی کے دروازے کے آگے گاڑی کھڑی کرنا اچھی بات نہیں،” اور ونڈ اسکرین پر وائپر کے سہارے ٹکا دیا۔

Car in Front of Door
شام دفتر سے واپسی پر وہی کاغذ پورچ کے دروازے پر پڑا تھا۔ ہماری تحریر کے نیچے درج تھا، "معافی چاہتا ہوں، آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔”
احساس ہوا، اکثر اوقات ہماری پریشانی حقیقی نہیں ہوتی۔ ہم کوئی بات فرض کر لیتے ہیں اور پھر اس مفروضے پر فکرمندی کا پہاڑ سوار کر لیتے ہیں۔ نہ صرف اپنا مزاج برہم کر لیتے ہیں بلکہ اس برہمی میں غیر ضروری لڑائیاں بھی مول لیتے ہیں۔ عین ممکن ہے گاڑی کا مالک ہمیں اس وقت مل جاتا تو اسے سخت باتیں کہتے، مدافعت میں وہ بھی سخت رویہ اختیار کرتا اور بات بڑھ جاتی۔
لہذا نئے سال کے لیے ہم نے تو عہد کیا ہے، آئندہ مفروضوں پر پریشان نہیں ہوں گے۔ جو گھڑی ابھی نہیں آئی، اس گھڑی سے نہیں ڈریں گے

6 thoughts on “دروازے پر کھڑی گاڑی

  1. اچھی سبق آموز تحریرہے – اپنا جی جلانے سے بہترہے انسان مثبت اورعملی اقدام کرے تو ناگوارصورتحال اور مسائل سے
    نپٹا جاسکتاہے – بات یہ ہے جناب آپ کی یہ تحریری کو میں خالص مذہبی کہوں گا ( ہمارامذہب سماجی بھی اخلاقی اور دنیاوی بھی)

    Liked by 1 person

  2. ایک خوب صورت پیغام بہت ہی خوب صورت انداز سے پیش کیا ہے۔ ہم بعض اوقات غصے میں آکر اس قدر جذباتی ہوجاتے ہیں کہ اپنا ہی نقصان کر بیٹھتے ہیں۔ کبھی کوئی آپ پر غصہ کرے اور آپ جواب میں اسے محبت اور انکساری سے جواب دے کر دیکھیے، بے چارا خود ہی شرمندہ ہوجائے گا۔
    وقت پر غصے کے اظہار کے مواقع نہ ملنا خوش قسمتی ہوتی ہے۔ وقتی ابال جب بیٹھتا ہے اور ہم ٹھنڈے ہوجاتے ہیں تو ہمیں مہذب طریقے سوجھتے ہیں یا احساس ہوتا ہے کہ مسئلہ اتنا بڑا تھا ہی نہیں جتنا ہم نے خیال ہی خیال میں بنا لیا تھا۔

    Liked by 1 person

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s